’کوئی بڑا فوجی آپریشن نہیں ہوگا‘ وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کو اعتماد میں لے لیا
وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کو آپریشن ’عزم استحکام‘ کے بارے میں گردش کرنے والی قیاس آرائیوں کے حوالے سے اعتماد میں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں کوئی فوجی بڑا آپریشن نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے نیشنل ایکشن پلان پر ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی گئی تھی جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف، جے یو آئی (ف) سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے آج ہی پریس کانفرنس میں آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے سامنے آنے والے سیاسی جماعتوں کے تحفظات پر کہا تھا کہ ’آپریشن عزم استحکام کا ماضی کے آپریشنز سے موازنہ درست نہیں ہے، آپریشن عزم استحکام پر کابینہ اور پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا‘۔
’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں معمول کے 11 نکاتی ایجنڈے کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کے دوران وزیراعظم نے ایوکیو ٹرسٹ بورڈ چئیرمین کی تعیناتی کی تجویز واپس کرتے ہوئے ہدایت کی کہ جو نام دیے گئے ہیں، پہلے ان کی شہرت چیک کی جائے۔
اجلاس میں فریکوئنسی ایلوکیشن بورڈ کے ایگزٹ ڈائریکٹر کی تعیناتی کی منظوری دی گئی جب کہ وفاقی کابینہ نے ای سی سی ، سی سی ایل سی کے فیصلوں کی توثیق کی، اس کے علاوہ ایس او ای کی کیبنٹ کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں کی بھی توثیق کر دی گئی۔
وزیراعظم نے اجلاس کے دوران کہا کہ عام آدمی کی قابلِ تجدید شمسی توانائی تک رسائی یقینی بنانے کے لیے سولر پینلز پر کسی قسم کی نئی ڈیوٹی نہیں لگائی جائے گی۔کم لاگت قابل تجدید شمسی توانائی ہر شہری تک پہنچائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کو مثبت سمت پر گامزن کرنے کے لیے بھرپور منصوبہ بندی کررہے ہیں، اللہ کے فضل وکرم سے ملک معاشی استحکام کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے، چھوٹے اور درمیانے پیمانے کی صنعت کو ترقی دے کر ملکی برآمدات میں اضافہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اشرافیہ اور ملکی وسائل کا استحصال کرنے والوں کی مراعات کو ختم کیا جائے گا۔عام آدمی کے معاشی تحفظ اور اُسے یکساں ترقی کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں پائیدار امن اور استحکام کے وژن کے لیے عزم استحکام ہے، یہ کوئی بڑا فوجی آپریشن نہیں ہوگا۔
پی ٹی وی نیوز کے مطابق وزیر اعظم نےکہا کہ’عزم استحکام مختلف سیکیورٹی ایجنسیوں اور پورے ریاستی نظام کے کثیر الجہتی تعاون کا مجموعی قومی وژن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس مقصد کے لیے کوئی آپریشن شروع کرنے کے بجائے پہلے سے جاری انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کو مزید تیز کیا جائے گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ ’ایک بڑا فوجی آپریشن جس کے لیے نقل مکانی کرنی پڑے، ویژن عزم استحکام کے تحت اس طرح کے آپریشن کا آغاز ایک غلط فہمی ہے۔
وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ’دہشت گردوں، جرائم اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ اور پرتشدد انتہا پسندی کو ہمیشہ کے لیے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا آپریشن کا مقصد تھا‘۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک اور فعال کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
اجلاس میں وفاقی کابینہ کے اہم وزرا بشمول نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے شرکت کی تھی۔
تمام صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، سروسز چیفس، صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے علاوہ دیگر سینئر سویلین، فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بھی اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ فورم نے انسداد دہشت گردی کی جاری مہم کا جامع جائزہ لیا اور داخلی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا، نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومین اصولوں پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا، خاص طور پر اس پر عمل درآمد میں خامیوں کی نشاندہی کرنے پر زور دیا گیا تاکہ ان کو اولین ترجیح میں دور کیا جا سکے۔
اجلاس میں مکمل قومی اتفاق رائے اور نظام کے وسیع ہم آہنگی پر قائم ہونے والی انسداد دہشت گردی کی ایک جامع اور نئی جاندار حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
اس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نے قومی عزم کی علامت، صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی۔
اعلامیے کے مطابق یہ آپریشن ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔
سیاسی سفارتی دائرہ کار میں علاقائی تعاون کے ذریعے دہشت گردوں کے لیے آپریشنل جگہ کو کم کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں گی، مسلح افواج کی تجدید اور بھرپور متحرک کوششوں کو تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل حمایت سے بڑھایا جائے گا، جو دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی موثر کارروائی میں رکاوٹ بننے والے قانونی خلا کو دور کرنے کے لیے موثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار ہوں گے اور انہیں مثالی سزائیں دی جائیں گی۔
اس مہم کو سماجی و اقتصادی اقدامات کے ذریعے مکمل کیا جائے گا جس کا مقصد لوگوں کے حقیقی خدشات کو دور کرنا اور انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنے والا ماحول بنانا ہے۔
مہم کی حمایت میں ایک متحد قومی بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے معلومات کی جگہ کا فائدہ اٹھایا جائے گا۔
فورم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور یہ قوم کی بقا اور بہبود کے لیے بالکل ضروری ہے، فورم نے فیصلہ کیا کہ کسی کو بغیر کسی رعایت کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
فورم نے پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا۔
وزیراعظم کی منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو نئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) جاری کیے گئے، جس سے پاکستان میں چینی شہریوں کو جامع سیکیورٹی فراہم کرنے کے طریقہ کار میں اضافہ ہوگا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ عزم استحکام کی جو ایپکس کمیٹی نے اجازت دی تو سب کو پتا کہ آرمی پبلک کے سانحے کے بعد ایپکس کمیٹی بنائی گئی اس میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی، ہم اس کو بحال کر رہے ہیں، اس کو کابینہ میں لے کر جارہے ہیں، ہم اسے ایوان میں بھی لے کر آئیں گے، ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے کہ اس کو نشانہ بنایا جا سکے، ان کو اعتراض ہے تو جب یہ مسئلہ ایوان میں آئے گا تب بھی اس پر بول سکتے ہیں، مگر یہ لوگ اپنی سیاسی اوقات دکھاتے ہیں، کل کی میٹنگ میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا موجود تھے، ان کے سامنے سب بات ہوئی، آج یہ دہشتگردوں کے ساتھ کھڑے ہیں احتجاج کر کے۔
اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین نے فوجی آپریشن کے خلاف شدید نعرے بازی کی تھی جب کہ اس سے قبل اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ کسی بھی آپریشن کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا آپریشن استحکام شروع ہورہا ہے، پہلے بھی جب آپریشن ہونے جارہا تھا اور آئین میں ترمیم کردی گئی تھی تو اس میں بھی پارلیمان کے کردار کا ذکر ہے، کوئی بھی آپریشن ہو چاہے، انٹیلیجنس بیسڈ ہو یا کوئی خاص تاثیر میں ہو تو اس کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، ہمیں پوائنٹ آف آرڈر میں یہ نقطہ نظر اٹھانا تھا کہ ہماری عسکری قیادت نے جیسے پہلے پارلیمان میں آکر ان کیمرہ بریفنگ دی، ان کو بتایا کہ کیا صورتحال ہے، ویسے ہی اب ہو، چاہے کوئی بھی کمیٹی ہو وہ پارلیمان سے بالاتر نہیں ہوسکتی تو کوئی بھی آپریشن پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر شروع نہ ہو۔