وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس کل طلب، آپریشن ’عزم استحکام‘ سے متعلق اعتماد میں لیا جائے گا
وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس کل طلب کرلیا۔
’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اجلاس میں آپریشن ’عزم استحکام‘ پر وفاقی کابینہ کو اعتماد میں لیاجائےگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آپریشن ’عزم استحکام‘ شروع کرنے کے حوالے سے کابینہ سے منظوری لی جائےگی جب کہ اجلاس کے دوران آئندہ مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے بعض تجاویز کو واپس لینے کا فیصلہ بھی متوقع ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک اور فعال کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
اجلاس میں وفاقی کابینہ کے اہم وزرا بشمول نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے شرکت کی تھی۔
تمام صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، سروسز چیفس، صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے علاوہ دیگر سینئر سویلین، فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بھی اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ فورم نے انسداد دہشت گردی کی جاری مہم کا جامع جائزہ لیا اور داخلی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا، نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومین اصولوں پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا، خاص طور پر اس پر عمل درآمد میں خامیوں کی نشاندہی کرنے پر زور دیا گیا تاکہ ان کو اولین ترجیح میں دور کیا جا سکے۔
اجلاس میں مکمل قومی اتفاق رائے اور نظام کے وسیع ہم آہنگی پر قائم ہونے والی انسداد دہشت گردی کی ایک جامع اور نئی جاندار حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
اس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نے قومی عزم کی علامت، صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی قومی مہم کو دوبارہ متحرک کرنے کی منظوری دی۔
اعلامیے کے مطابق یہ آپریشن ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔
سیاسی سفارتی دائرہ کار میں علاقائی تعاون کے ذریعے دہشت گردوں کے لیے آپریشنل جگہ کو کم کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں گی، مسلح افواج کی تجدید اور بھرپور متحرک کوششوں کو تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل حمایت سے بڑھایا جائے گا، جو دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی موثر کارروائی میں رکاوٹ بننے والے قانونی خلا کو دور کرنے کے لیے موثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار ہوں گے اور انہیں مثالی سزائیں دی جائیں گی۔
اس مہم کو سماجی و اقتصادی اقدامات کے ذریعے مکمل کیا جائے گا جس کا مقصد لوگوں کے حقیقی خدشات کو دور کرنا اور انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنے والا ماحول بنانا ہے۔
مہم کی حمایت میں ایک متحد قومی بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے معلومات کی جگہ کا فائدہ اٹھایا جائے گا۔
فورم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور یہ قوم کی بقا اور بہبود کے لیے بالکل ضروری ہے، فورم نے فیصلہ کیا کہ کسی کو بغیر کسی رعایت کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
فورم نے پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا۔
وزیراعظم کی منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو نئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) جاری کیے گئے، جس سے پاکستان میں چینی شہریوں کو جامع سیکیورٹی فراہم کرنے کے طریقہ کار میں اضافہ ہوگا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ عزم استحکام کی جو ایپکس کمیٹی نے اجازت دی تو سب کو پتا کہ آرمی پبلک کے سانحے کے بعد ایپکس کمیٹی بنائی گئی اس میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی، ہم اس کو بحال کر رہے ہیں، اس کو کابینہ میں لے کر جارہے ہیں، ہم اسے ایوان میں بھی لے کر آئیں گے، ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے کہ اس کو نشانہ بنایا جا سکے، ان کو اعتراض ہے تو جب یہ مسئلہ ایوان میں آئے گا تب بھی اس پر بول سکتے ہیں، مگر یہ لوگ اپنی سیاسی اوقات دکھاتے ہیں، کل کی میٹنگ میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا موجود تھے، ان کے سامنے سب بات ہوئی، آج یہ دہشتگردوں کے ساتھ کھڑے ہیں احتجاج کر کے۔
اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین نے فوجی آپریشن کے خلاف شدید نعرے بازی کی تھی جب کہ اس سے قبل اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ کسی بھی آپریشن کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا آپریشن استحکام شروع ہورہا ہے، پہلے بھی جب آپریشن ہونے جارہا تھا اور آئین میں ترمیم کردی گئی تھی تو اس میں بھی پارلیمان کے کردار کا ذکر ہے، کوئی بھی آپریشن ہو چاہے، انٹیلیجنس بیسڈ ہو یا کوئی خاص تاثیر میں ہو تو اس کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، ہمیں پوائنٹ آف آرڈر میں یہ نقطہ نظر اٹھانا تھا کہ ہماری عسکری قیادت نے جیسے پہلے پارلیمان میں آکر ان کیمرہ بریفنگ دی، ان کو بتایا کہ کیا صورتحال ہے، ویسے ہی اب ہو، چاہے کوئی بھی کمیٹی ہو وہ پارلیمان سے بالاتر نہیں ہوسکتی تو کوئی بھی آپریشن پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر شروع نہ ہو۔