• KHI: Fajr 5:31am Sunrise 6:51am
  • LHR: Fajr 5:09am Sunrise 6:33am
  • ISB: Fajr 5:16am Sunrise 6:43am
  • KHI: Fajr 5:31am Sunrise 6:51am
  • LHR: Fajr 5:09am Sunrise 6:33am
  • ISB: Fajr 5:16am Sunrise 6:43am

مالی سال 24-2023 میں پاور ڈویژن، دفاع اور انتخابی اخراجات مختص کردہ رقم سے تجاویز کرگئے

شائع June 15, 2024
فائل فوٹو : ثوبیہ شاہد
فائل فوٹو : ثوبیہ شاہد

فنانس ڈویژن کی جانب سے مالی سال 24-2023 کے لیے جاری کی گئی اخراجات کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم 38 سرکاری محکموں نے رواں مالی سال کے دوران اپنے مختص کردہ رقوم سے تجاوز کیا، ان محکموں نے سپلیمنٹری اور ٹیکنیکل گرانٹس کے ذریعے اضافی فنڈز وصول کیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قرض کی ادائیگی (مقامی اور غیر ملکی) کے علاوہ، پاور ڈویژن سب سے زیادہ خرچ رقم خرچ کی، جس نے اپنی مختص کردہ رقم تقریباً 450.5 ارب روپے کے مقابلے میں 769.7 ارب روپے خرچ کیے، یعنی مال سال 24-2023 کے دوران اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے تقریباً 319.1 ارب روپے کی اضافی رقم درکار تھی۔

دفاعی شعبے کا بھی کچھ یہی حال تھا، حکومت نے 18 کھرب روپے مختص کیے تھے، لیکن اخراجات 18 کھرب 35 ارب روپے تک پہنچ گئے، آپریٹنگ، سول ورکس سمیت تقریباً تمام شعبوں میں اضافی اخراجات کی وجہ اس رقم میں 31.5 ارب روپے کا اضافہ ہوا، دریں اثنا، ڈیفنس ڈویژن کو اپنے مختص کردہ 6 ارب روپے کے بجٹ کے مقابلے میں 20 ارب روپے کی منتقلی کی ضرورت تھی۔

مالی سال 2024 کے دوران عام انتخابات کی وجہ سے بھی اضافی خرچہ ہوا، 7.7 ارب روپے کی مختص کردہ رقم کے مقابلے میں مجموعی اخراجات 39 ارب روپے سے زیادہ تھے، جس کی بنیادی وجہ 8 فروری کے عام انتخابات اور اس کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات تھے۔

دوسری جانب، منصوبہ بندی، ترقی، اور خصوصی اقدامات کے لیے مالی سال 2024 کے دوران مختص کردہ 8 ارب روپے کے مقابلے میں 13.9 ارب روپے زیادہ درکار ہیں، اس اضافے کی وجہ ’گرانٹس، سبسڈیز، اور قرضوں کو معافی‘ کے تحت اخراجات میں اضافہ ہے۔

آئی ٹی اور ٹیلی کام ڈویژن کی جانب سے بھی اضافی رقوم خرچ کی گئیں، ان محکموں کو ’گرانٹس، سبسڈیز، اور قرضوں کی معافی‘ کی مد میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مزید 10 ارب روپے درکار تھے، جب کہ حکومت کی جانب سے ان محکموں کو اضافی 9 ارب روپے مختص کیے گئے۔

مجموعی طور پر، سرکاری محکموں کی جانب سے خرچ کی گئی کل رقم 454.1 ارب روپے تھی، جب کہ تقریباً 3 درجن محکموں اور ڈویژنز کی جانب سے بچائی گئی کل رقم 446 ارب روپے تھے، یعنی مجموعی طور پر، حکومت کو اپنے اخراجات کو تقریباً 8 ارب روپے کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان محکموں نے اپنے مختص کردہ فنڈز کا مکمل استعمال نہیں کیا، مثال کے طور پر، وزارت خزانہ نے ’سبسڈی اور متفرق اخراجات‘ کے تحت 441 ارب روپے بچائے۔

ایسی صورت میں کسی بھی محکمہ کی جانب سے بچائی گئی رقم کو ان محکموں یا وزارت کی جانب موڑ دیا جاتا ہے، جن کو فنڈز کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہوں، ان رقوم کو وفاقی کابینہ یا اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی جانب سے تکنیکی ضمنی گرانٹس کی مد میں منظور کیا جاتا ہے، جو پارلیمنٹ سے منظور کروائے جاتے ہیں۔

دریں اثنا، وفاقی حکومت کے 2 درجن سے زائد محکموں نے اپنا مختص کردہ مکمل بجٹ استعمال کیا۔

جیسے کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا کہ وزارت خزانہ نے اپنے مختص کرردہ 15 کھرب روپے کے مقابلے میں کافی رقم بچائی کیوں کہ اس کے اخراجات بمشکل 11 کھرب روپے کے قریب تھے۔

آپریٹنگ اخراجات میں کمی کی وجہ سے فنانس ڈویژن نے اپنے مختص کردہ 4.2 ارب روپے کے بجٹ سے تقریباً 92 کروڑ 50 لاکھ روپے کی بچت کی۔

اسی طرح، پریمیئر سوشل ویلفیئر پروگرام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اپنے 471 ارب روپے کے مختص کردہ بجٹ میں سے تقریباً 450 ارب روپے استعمال نہیں کرسکا، اور یہ ’ملازمین سے متعلقہ اخراجات‘ کے تحت اپنے اخراجات کو نمایاں طور پر کم کرنے میں کامیاب رہا۔

آپریشن اخراجات کی کمی کی وجہ میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے 8.2 ارب روپے کے بجٹ میں سے 61 کروڑ 20 لاکھ روپے غیر استعمال شدہ رہے۔

علاوہ ازیں، نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی، جس کے لیے 1 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی لیکن تقریباً 450 کروڑ روپے کی ’بچت‘ کے ساتھ صرف 53 کروڑ 60 لاکھ روپے خرچ کرسکی، عدلیہ نے بھی بچت کے نظام میں اپنا حصہ ڈالا، سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور اسلام آباد کی ضلعی عدلیہ نے مل کر تقریباً 50 کروڑ روپے کی بچت کی۔

کارٹون

کارٹون : 17 نومبر 2024
کارٹون : 16 نومبر 2024