• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

قومی اسمبلی: حکومت نے شور شرابے، احتجاج کے دوران 4 بلز منظور کرلیے

شائع June 11, 2024
— فائل فوٹو: قومی اسمبلی ایکس
— فائل فوٹو: قومی اسمبلی ایکس

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومت نے اپوزیشن کے پرزور احتجاج کے درمیان چار بلوں کو متنازع انداز میں پیش کیریدا جبکہ اپوزیشن نے حکمران اتحاد پر جمہوری اصولوں کو نظرانداز کرنے اور بحث کو روکنے کا الزام لگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیر کو ہنگامہ خیز اجلاس میں وزیر توانائی اویس لغاری کو بجلی کی جاری بندش اور لوڈشیڈنگ کے مسائل پر ٹریژری اور اپوزیشن ارکان دونوں کے اعتاب کا سامنا کرنا پڑا، وزیر نے اعتراف کیا کہ پاور کمپنیاں اور اس کے حکام اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اجلاس کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن اراکین نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان اور بعض ممبران کو سرگودھا میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے احاطے میں داخل ہونے سے مبینہ طور پر روکنے پر پنجاب پولیس کے خلاف ٹوکن واک آؤٹ کیا، جس کے نتیجے میں عمر ایوب خان کی ضمانت منسوخ ہوگئی تھی۔

اپوزیشن ارکان نے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے جمع ہو کر بھرپور نعرے بازی کی اور بل اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ شاہ نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو 4 بل کی منظوری کی تحریک پیش کرنے کی اجازت دی، ان بلوں کو اسپیکر کی جانب سے تشکیل دی گئی نامکمل اور ایڈہاک اسٹینڈنگ کمیٹیوں نے منظور کر لیا۔

ایوان نے قواعد کو معطل کرنے کے بعد بلوں کی منظوری دے دی جس کے بعد اراکین کو بلوں میں ترامیم تجویز کرنے کے لیے 2 دن کا وقت دیا گیا۔

اسمبلی سے منظور کیے گئے بلوں میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (ترمیمی) بل 2023، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (ترمیمی) بل 2023، پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ (ترمیمی) بل 2023 اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (ترمیمی) بل 2023 شامل ہے، یہ تمام بل نگران حکومت نے پہلے ہی آرڈیننس کے ذریعے جاری کر دیے تھے۔

سنی اتحاد کونسل کے چیف وہپ عامر ڈوگر نے بعد میں قانون کو بلڈوز کرنے پر احتجاج کیا اور موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ اسمبلی کو بھی جعلی قرار دیا۔

بجلی کی لوڈشیڈنگ

اجلاس کے دوران شدید گرم موسم میں مختلف علاقوں میں جاری لوڈشیڈنگ کے معاملے پر وزیر توانائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ملک بھر کے قانون سازوں نے وزیر کو اس وقت آڑے ہاتھوں لیا جب انہوں نے بجلی چوری کا پتا لگانے میں صوبائی حکومتوں اور منتخب نمائندوں سے تعاون طلب کیا۔

وزیر اویس لغاری کا کہنا تھا کہ سسٹم میں بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی پیداوار اور ترسیل کی گنجائش ہے، اور ہم صارفین کو 24 گھنٹے بجلی فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم، یہ لائن لاسز اور بجلی کی چوری کو کنٹرول کیے بغیر ممکن نہیں ہے، ملک گردشی قرضے میں مزید اضافہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

وزیر نے زور دے کر بتایا کہ جب تک تقسیم کار کمپنیاں صوبائی حکومتوں کے تعاون سے اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتیں اور اپنے نقصانات کو کنٹرول نہیں کرتیں، ان زیادہ نقصان والے فیڈرز پر لوڈ شیڈنگ جاری رہے گی۔

یہ معاملہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے نور عالم خان اور بعد میں پیپلز پارٹی کے قانون ساز نے اٹھایا تھا، ایم کیو ایم پی کے اراکین اسمبلی بھی وزیر پر برس پڑے۔

پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے وزیر سے شکایت کرنے کے بجائے اس معاملے پر کارروائی کرنے کو کہا، تاہم، اویس لغاری نے اسپیکر کو کہا کہ وہ اس معاملے پر بحث کے لیے پورے دن کے لیے اجلاس وقف کریں، یہ کہتے ہوئے کہ وہ ماہرین کے ساتھ ایوان میں آئیں گے اور اراکین کی طرف سے اٹھائے گئے ہر نکتے کا جواب دیں گے۔

واک آؤٹ

اجلاس کے آغاز پر اپوزیشن لیڈر اور دیگر ممبران قومی اسمبلی کو سرگودھا میں انسداد دہشتگردی عدالت جانے سے مبینہ طور پر روکنے پر اپوزیشن نے پنجاب پولیس کے خلاف احتججا کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔

واک آؤٹ کی قیادت سابق اسپیکر اسد قیصر نے کی جنہوں نے وقفہ سوالات کے دوران پوائنٹ آف آرڈر کے ذریعے معاملہ اٹھایا۔

بعد ازاں عمرا خان نے خود ایوان کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا اور اعلان کیا کہ وہ پنجاب پولیس کے خلاف تحریک استحقاق پیش کریں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024