• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

’بھارت فیصلے کا منتظر ہے‘

شائع June 4, 2024

آج بھارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ انتہائی سخت گرم موسم میں لوک سبھا کی 543 نشستوں کے لیے غیرضروری طور پر طویل انتخابات ہوئے جن کے دوران تقریباً ایک درجن پولنگ اہلکار ہیٹ اسٹروک سے ہلاک ہوئے۔ اس کے باوجود بھارتی شہری اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے گھروں سے نکلے جوکہ جمہوریت پر ان کے یقین کا ثبوت ہونا چاہیے۔

وزیراعظم اپنی انتخابی مہم میں مسلم کمیونٹی کے خلاف بیان بازی کرتے نظر آئے جہاں انہوں نے مسلمانوں کو دراندازوں کے طور پر بیان کیا جوکہ 80 فیصد ہندو آبادی کے لیے خطرہ ہیں۔ وزیراعظم آفس نے انتخابی مراحل کے دوران اس جھوٹ کو ہوا دینے کے لیے جعلی ڈیٹا بھی شائع کیا۔ انہوں نے مسلمانوں پر ہندو خواتین کے منگل سوتر اور ہر ہندو شہری کی نوکری حتیٰ کہ بھینسوں پر بھی نظر رکھنے کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے منشور کو مسلم لیگ سے تشبیہ دی۔ چونکہ ان کی نظر میں مسلمان درانداز ہیں اور مودی کے دعوے کے مطابق مسلمانوں کی آبادی جلد یا بہ دیر ہندوؤں کی اکثریت پر غالب آجائے گی، جس نے واضح انداز میں یہ پیغام دیا کہ چوں کہ وہ خطرہ بن چکے ہیں اس لیے ضرورت ہے کہ انہیں منظرنامے سے ہٹا دیا جائے۔

وزیراعظم کے نفرت انگیز الزامات سے ذہن میں نازی کے نسل پرستانہ خیالات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ ایک جانب وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب اپنے پسندیدہ صحافیوں کو دیے گئے انٹرویوز میں قسم کھاتے رہے کہ انہوں نے کبھی بھی مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنایا اور اگر وہ کبھی ایسا کرتے ہیں تو وہ ملک چلانے کے اہل نہیں ہوں گے۔ نریندر مودی اپنے بیانات بدلنے اور باتوں کو توڑمروڑ کر پیش کرنے میں ماہر ہیں جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔

انہوں نے اپنی پالیسیز پر تنقید کرنے پر اپوزیشن رہنماؤں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں بالخصوص تب جب وہ ان پر اپنے امیر سرمایہ داروں سے فنڈنگ لینے کا الزامات عائد کرتے ہیں۔ اپوزیشن کی انتخابی مہم میں گوتم ایڈوانی اور مکیش امبانی جیسے بڑے کاروباری حضرات سے فنڈنگ لینے کے الزامات وزیراعظم مودی پر بار بار لگائے گئے۔ انہوں نے کھل کر تو نہیں بتایا کہ وہ اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ کیا کریں گے لیکن انہوں نے بہار کے 34 سالہ جوان اپوزیشن رہنما تیجسوی یادو کو خبردار کیا کہ انتخابات کے بعد انہیں جیل جانا پڑے گا۔

اسی دوران دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی 3 ہفتوں کی ضمانت اتوار کو ختم ہوگئی جس کے بعد وہ ایک بار پھر جیل جاچکے ہیں۔ جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ نے بھی انتخابات سے قبل گرفتار ہونے پر استعفیٰ دے دیا اور اس وقت وہ بھی جیل میں ہیں۔ بائیں بازو کی لبرل سوچ رکھنے والے دیگر دانشور بھی قید و بند کی سختیاں جھیل رہے ہیں۔ وہ ملک بھر کی جیلوں میں قید ہیں جو خود پر نام نہاد دہشت پھیلانے کے مقدمات کے ٹرائلز کے منتظر ہیں۔ میڈیا ان کسانوں کی طرف کبوتر کی طرح آنکھ بند کیے ہوئے ہیں جو بہ دستور پنجاب میں احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں تاکہ وہ وزیراعظم پر اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکیں۔

نریندر مودی نے راہول گاندھی کی سفید شرٹ کے متضاد مختلف رنگوں کے لباس پہنے، اس حوالے سے دونوں کا مقابلہ کافی دلچسپ رہا۔ ایک جانب راہول گاندھی نے مچھیروں کی کشتی سے بحیرہ عرب میں چھلانگ لگائی تو دوسری جانب نریندر مودی ایک اتھلے سمندر میں مراقبہ میں بیٹھ گئے (اپنی آنکھیں بند کرکے جبکہ اس موقع پر ان کی سیکیورٹی بھی موجود تھی جو انہیں ٹیوب کے ذریعے سانس فراہم کرنے کا کام کرتی رہی) لیکن اسے عکس بند کرنے کے لیے پانی کے اندر وہ کیمرے لے جانا نہیں بھولے۔

راہول گاندھی نے کچھ نامور پہلوانوں سے ریسلنگ کی اور رائے بریلی میں گلی کے کونے پر واقع ایک حجام سے اپنی داڑھی تراشوائی۔ اس کے جواب میں نریندر مودی اعلان کیا کہ وہ ایک دیوتا کا روپ ہیں اسی لیے انہیں عام انسان نہ سمجھا جائے۔

اپنی بات کہنے کے بعد وہ سوامی وویکانند کی طرح زعفرانی لباس میں ملبوس، بھارت کے سب سے جنوبی کونے پر ایک بار پھر مراقبے کے لیے چلے گئے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سوامی وویکانند 1893ء میں غور و فکر کرنے بیٹھے تھے۔ اس موقع پر بھی یہ مناظر عکس بند کرنے کے لیے میڈیا وہاں موجود تھا۔ اپنے 10 سالہ حکمرانی میں نریندر مودی ہمیشہ اپنے دانستہ اور غیر متوقع رویے سے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب رہے۔

آج آنے والے فیصلے کے حوالے سے ایک وجودی سوال یہ ہے کہ ’کیا بھارت اپنے اس مقصد کو پا لے گا جو اس کے بانیان نے طے کیا تھا اور جنہوں نے بھارت کو اس کا قابلِ رشک آئین دیا تھا، یا پھر یہ فراموش ہوکر نظریات کے تحت چلنے والا ملک بن جائے گا کہ جہاں ہندوتوا کا راج ہوگا؟

اس بات پر سب متفق ہیں کہ 4 جون کے بعد بھارت پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ اگر نریندر مودی کو واضح اکثریت مل جاتی ہے جیسا کہ ابتدائی نتائج میں سامنے آرہا ہے تو یہ مہاتما گاندھی اور نہرو کے نظریات پر حتمی حملہ ہوگا بالخصوص بھیم راؤ رام جی امبیڈکر کے نظریہ بھارت پر یہ ایک کاری ضرب ہوگی۔ اور یہ تبدیلی آئے گی بھی ایک دائیں بازو کی جماعت سے جو سخت قوم پرست نظریات رکھتی ہے۔

میں نے یہاں بھیم راؤ رام جی امبیڈکر کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جوکہ دستور ساز اسمبلی کے دلت رکن تھے جنہوں نے بھارتی آئین کا پہلا مسودہ تیار کرنے والے پینل کی سربراہی کی تھی۔ بھارتی آئین جس کی ہندوتوا کے حامیوں کی جانب سے بارہا توہین کی جارہی ہے جبکہ راہول گاندھی اپنی انتخابی ریلیوں میں اس کی شان کے گُن گاتے رہے۔

جب مہاتما گاندھی نے بھیم راؤ رام جی امبیڈکر کو دعوت دی کہ وہ مندر میں داخلے کی تحریک کا حصہ بنیں تاکہ دلت کو ہندو مندروں میں داخلے کی اجازت مل سکے جہاں سے انہیں برہمن عبادت گزاروں نے بےدخل کردیا تھا، لیکن انہوں نے مہاتما گاندھی سے معذرت کرلی کہ وہ اس تحریک میں شامل نہیں ہوں گے۔ اس موقع پر امبیڈکر نے کہا کہ یہ فیصلہ ہندوؤں کو کرنا تھا کہ وہ اپنی سچائی کو کس طرح پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ مندر کے دورے پر اپنی توانائی ضائع کرنے کے بجائے اپنے دلت ساتھیوں کے لیے اچھی تعلیم اور اچھی ملازمتیں تلاش کرنے کو ترجیح دیں گے۔

انہوں نے جو آئین تیار کیا اس نے بھارتی شہریوں کو زندگی کے سائنسی پہلو تلاش کرنے میں مدد دی۔ جبکہ نریندر مودی کے طریقے آئین کی روح کے منافی ہیں جو عوام کی بڑی تعداد کو جہالت اور توہم پرستی کی دلدل میں ڈھکیل چکی ہے، جسے کانگریس ایک دہائی پر مشتمل دورِ اقتدار میں حل کرنا تو دور کی بات اس پر ٹھیک سے توجہ تک نہیں دے پائی۔

راہول گاندھی نے تمام تر توجہ استحصال کا شکار عوام بالخصوص خواتین کے حقوق اور انصاف پر مرکوز کی۔ آئیے آئین میں درج شہریوں کے فرائض پر بھی نظر ڈالتے ہیں، جس کی نریندر مودی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔

’یہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنی جامع ثقافت کے شاندار ورثے کی قدر کرے اور اس کا تحفظ کرے‘۔ آئین میں ماحولیات کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جس کے تحت شہریوں کو ’اپنی قدرتی ماحولیات بشمول جنگلات، جھیلوں، دریاؤں، جنگلی حیات کے تحفظ اور انہیں بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے جبکہ مخلوقات سے ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘۔

لیکن شاید جواہر لال نہرو اور بھیم راؤ رام جی امبیڈکر جس کے متلاشی تھے یعنی ’سائنس، اصلاح کے جذبے کو فروغ دینا‘۔ اور کیسے مودی کے بھارت میں شہریوں کو ’مذہبی، لسانی اور علاقائی یا طبقاتی تنوع سے بالاتر ہو کر ہندوستان کے تمام لوگوں کے درمیان ہم آہنگی اور مشترکہ بھائی چارے کے جذبے کو فروغ دینا چاہیے (اور)، خواتین کے وقار کے لیے توہین آمیز رویوں کو ترک کرنا چاہیے‘۔

بھارت بھرپور امیدوں کے ساتھ فیصلے کا منتظر ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کے دلوں میں کہیں فیصلے کو لےکر خوف بھی چھپا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024