• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے، فیصل واڈا

شائع May 15, 2024
فیصل واڈا۔ فوٹو: ڈان نیوز
فیصل واڈا۔ فوٹو: ڈان نیوز

سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے کہا ہے کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، 15 روز ہوگئےجواب نہیں آیا، 19 اے کے تحت مجھے جواب دیا جائے، بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی تحریری طور پر لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔

انہوں نے بتایا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے آرڈر دیا کہ ہر پاکستانی بات کسی سے بھی پوچھ سکتا ہے تو پاکستانی تو دور کی بات ایک سینیٹر کو جواب نہیں مل رہا تو اب ابہام بڑھ رہا ہے، شک و شبہات سامنے آرہے ہیں کہ اس کے پیچھے منطق کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے چیزیں ہوئیں، ایک سال بعد یاد آئیں، تو ایک سال پہلے کیوں نہیں بتایا؟ اب پھر مداخلت ہوئی پرسوں تو الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، اب آپ کو ثبوت دینے پڑیں گے کہ کس نے مداخلت کی، کیوں کی اور اس کے شواہد دیں تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ورنہ تو میں بھی فون اٹھا کے کہوں کہ جج نے کہہ دیا ہے کہ قتل کردو تو اس کا ٹرائل تھوڑی ہوجائے گا۔

فیصل واڈا نے کہا کہ ہمیں جواب نہیں مل رہا، ہمیں بتایا جائے کہ کیا ریکارڈ کے اندر یہ سب لکھا گیا ہے اور اگر ریکارڈ کا حصہ نہیں تو اس کے نتائج ہوں گے، اطہر من اللہ صاحب تو تاریخی فیصلے کرتے ہیں، میرا گمان ہے کہ وہ اصول پسند آدمی ہیں، وہ کسی دباؤ میں نہیں آتے، کسی سے رات کے اندھیرے میں نہیں ملتے تو وہ ایسی غلطی نہیں کرسکتے کہ انہوں نے تحریری طور پر چیز نا لی ہو، وہ ریکارڈ ہمیں ملنا چاہیے، ہم اسے کیوں نا منگیں؟

سابق وزیر کے مطابق سوشل میڈیا کے اوپر آپ نے نوٹس لیا، لیکن ہماری ماؤں کو جب سوشل میڈیا کے ٹرولز غلاظت بک رہے تھے تو اس پر بھی نوٹس لیا جانا چاہیے تھا لیکن جسٹس منصور علی شاہ نے بہت اچھی بات کی، خود احتسابی کی بات کی تو اس پر ہمیں خوش ہونا چاہیے لیکن ایک تناؤ ہے جس کے تحت بار بار انٹیلیجنس اداروں کا نام لیا جا رہا ہے تو شواہد دیں، اور اگر جو آپ نے بتایا وہ زبانی ہے تحریری نہیں ہے تو پھر تو مسئلہ ہے، اس معاملے کو واضح کریں تاکہ یہ منطقی انجام تک پہنچے۔

ان کا کہنا تھا کہ سستی روٹی، غریب کے لیے کوئی اسٹے آرڈر ہوا؟ نسلہ ٹاور کے متاثرین کے لیے کچھ ہوا؟ 40 سال پہلے بھٹو صاحب کو علامتی سزا دی گئی آپ ہمیں بتا رہے ہیں، یہ ہمیں پہلے سے ہی پتا تھا، نواز شریف کو پیسے نا لینے پر نا اہل کردیا گیا پر کوئی پوچھنے والا نہیں، عمران خان کی حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا، کب تک ہم یوں چلیں گے، اگر قانون ساز کوئی دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج دوہری شہریت کے ساتھ کیسے بیٹھے ہیں؟

فیصل واڈا نے کہا کہ جوپاکستان کا جھنڈا لے کر آگے بڑھ رہے ہیں ایس آئی ایف سی کے فورم سے تو اس جھنڈے میں ہم نے ان کو ڈنڈا بھی دیا ہے اور اس ڈنڈے کا کام یہ ہے کہ بیرون اندرونی سازش اور انتشار سے بچایا جائے کیونکہ یہ ادارہ واحد رہ گیا ہے جہاں 90 فیصد ڈسپلن ہے، سچائی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے پاکستان اہم ہے، آئین و قانون میں کہاں لکھا ہے کہ پولیس اور سیکیورٹی والے سرحد کی حفاظت کریں گے؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ جنہوں نے قربانیاں دی ان پر الزامات لگائے جائیں؟ اگر ان پر الزامات سچے ہیں تو شواہد رکھیں، ان کے کل پرسوں کے خط کے مطابق بھی ہمیں کاغذی کارروائی چاہیے، بہت مذاق ہوگیا پاکستان کے ساتھ، مجھے امید ہے کہ جواب جلد آنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر آپ قدغن لگائیں لیکن اپنے لیے نہیں سب کے لیے، میری والدہ بستر مرگ پر تھیں تب انصاف فراہم کرنے والوں نے میری پگڑیاں اچھالی، اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے، پیار کریں گے تو ڈبل پیار دیں گے لیکن بدمعاشی کریں گے تو ڈبل بدمعاشی کریں گے، اداروں کو نشانہ بنانا بند کریں، فوج نہیں ہو گی تو پاکستان نہیں بچے گا، اگر ان کی مداخلت ہے تو ثبوت پیش کریں، ضمانت آپ دیتے ہیں سوال ہم سے، جیل آپ بھیجتے ہیں سوال ہم سے، کوئی جیپ میں بٹھا کے لے جائے تو جیپ کے آگے بیٹھ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ بہت سارے راز ہیں، ہوم ورک ہے لیکن مجھے گمان ہے کہ اطہر من اللہ شہ سرخیوں پر فیصلہ نہیں کرتے، وہ اتنی بڑی غلطی نہیں کرسکتے، اگر لکھا ہوا ہے تو سوال ختم، بات ختم ہوجاتی ہے لیکن نہیں ہے اگر ریکارڈ تحریری تو پھر سوال اٹھیں گے، سپریم جوڈیشل کونسل کو اس میں مداخلت کرنی ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024