• KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:03pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:28pm
  • KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:03pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:28pm

توشہ خانہ کیس میں عمران خان، بشری بی بی کی سزا معطل، رہائی کا حکم

شائع April 1, 2024
—فائل فوٹو:اے ایف پی
—فائل فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور اہلیہ بشری بی بی کی سزا معطل کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی، بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت پیش ہوئے جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے پراسیکیوٹر امجد پرویز عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ علی صاحب اگر آپ اپیلوں پر دلائل دیں گے تو ہم آپ کو نہیں سن سکتے، سائفر کیس میں اپیلوں کو سنا جارہا ہے، دونوں اپیلوں کو ایک ساتھ نہیں سنا جاسکتا۔

اس پر بیرسٹر علی طفر نے کہا کہ سلمان صفدر نے کہا تھا سائفر اپیلوں پر وہ آدھے گھنٹے کے دلائل دیں گے، مجھے اس کیس میں آج دلائل دینے دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ سزا معطلی کے اوپر دلائل دینا چاہتے ہیں تو ہم سن لیتے ہیں، سزا کے خلاف اپیل عید کے بعد مقرر کریں گے۔

بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا یہ بالکل مختلف کیس ہے، اس پر ہمارے ابتدائی دلائل سن لیے جائیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ سائفر اپیلیں ایک دو سماعتوں میں مکمل ہو جائیں گی، اس کے بعد ہی یہ اپیلیں سنیں گے، ہم آپ کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کر لیتے ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا نیب سزا معطلی پر کوئی مؤقف پیش کرنا چاہتا ہے؟ نیب وکیل نے مؤقف اپنایا سزا معطلی پر کوئی اعتراض نہیں تاہم اپیلیں ابھی نہیں سنی جا سکتیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ نیب کا بڑا قابل تعریف مؤقف ہے، نیب کے مؤقف کے بعد عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

وکیل علی ظفر نے استدعا کی کہ سزا کے ساتھ سزا کا فیصلہ بھی معطل کر دیا جائے جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ وہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، ابھی اس کو چھوڑ دیں۔

بعد ازاں عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کی سزا معطل کردی۔

واضح رہے کہ 31 جنوری کو بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ریفرنس میں 14،14 سال قید با مشقت کی سزا سنادی گئی تھی۔

احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو کسی بھی عوامی عہدے کے لیے 10 سال کے لیے نااہل بھی کر دیا تھا۔

احتساب عدالت اسلام آباد نے دونوں ملزمان پر 78 کروڑ 70 روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

بعد ازاں 16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے سائفر، توشہ خانہ اور نکاح کیسز میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا تھا۔

17 فروری کو سابق وزیراعظم و بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی سائفر، توشہ خانہ، نکاح کیسز میں سزا کے خلاف اپیلوں پر ڈائری نمبر الاٹ کردیا گیا تھا۔

26 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ نیب کیس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا تھا۔

29 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ تحائف ریفرنس میں سزا کے خلاف بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کی اپیلوں پر سماعت ملتوی کردی تھی۔

13 مارچ کو ہونے والی سماعت بھی ملتوی کر دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کو اسلام آباد کی عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔

بعد ازاں 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

تاہم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم کو جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔

6 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے خلاف اپیل واپس لینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

سابق حکمراں اتحاد پی ڈی ایم کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 25 دسمبر 2024
کارٹون : 24 دسمبر 2024