پاکستان کا آئی ایم ایف سے آزاد اور وزیر اعظم کی مدت مکمل ہونے کا امکان نہیں، رپورٹ
واشنگٹن میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس (آئی آئی ایف) نے کہا ہے کہ کمزور اتحادی حکومت اور انتخابی دھاندلی کے الزامات سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کے درمیان موجودہ مالی سال میں اہداف حاصل نا کرنے کی راہ پر گامزن پاکستان کے لیے اب سب سے بڑا چیلنج مالیاتی استحکام اور اصلاحات ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے تجارتی اور سرمایہ کاری بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور سرمایہ کاری کے انتظامی اداروں پر مشتمل مالیاتی اداروں کے ایک عالمی ادارے آئی آئی ایف کا کہنا ہے کہ دوسری جانب، شرح مبادلہ، مانیٹری پالیسی، توانائی کی سبسڈیز اور ریاستی ملکیتی اداروں (ایس او ای) کی اصلاحات کے گزشتہ سال کے دوران اچھی پیشرفت کی وجہ سے نئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی راہ میں رکاوٹ بننے کا امکان نہیں ہے۔
آئی آئی ایف کے مطابق سب سے بڑا چیلنج مالیاتی استحکام کی صورت میں آئے گا، اس کا کہنا تھا کہ یہ شعبہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بڑے مالیاتی خسارے کی وجہ سے عوامی قرضہ مالی سال 2009-10 میں جی ڈی پی کے 55 فیصد سے بڑھ کر 2022-2023 میں 79 فیصد ہو گیا۔
انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس نے کہا کہ نئے تخمینوں میں اب مجموعی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 8.1 فیصد اور بنیادی خسارہ جی ڈی پی کا 0.2 فیصد ظاہر ہوتا ہے، یہ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے ساتھ موافق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 7 ماہ کا مالیاتی خسارہ گزشتہ سال جی ڈی پی کے 2.3 فیصد (1.974 ٹریلین روپے) سے بڑھ کر جی ڈی پی کے 2.6 فیصد (2.721 ٹریلین روپے) تک پہنچ گیا اگرچہ اس میں شامل بنیادی اخراجات نے گزشتہ سال کے 945 ارب روپے کے بنیادی سرپلس کو 1.939 ٹریلین روپے تک بڑھانے میں مدد کی۔
آئی آئی ایف نے نوٹ کیا کہ سیاسی طور پر کمزور حکومت کے ساتھ تاریخی مثالوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ خطرات منفی پہلو کی طرف جھک گئے ہیں، اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ 9.4 ٹریلین کے ٹیکس ریونیو کا ہدف مکمل نہیں ہوپائے گا جبکہ مزید اخراجات اور سبسڈی میں نمایاں کٹوتیاں مشکل ہوں گی، آئی آئی ایف نے 0.3 فیصد کے بنیادی خسارے کی پیش گوئی بھی کی۔
’سیاسی تناؤ خطرات میں اضافہ کرے گا‘
آئی آئی ایف نے کہا کہ سیاسی تناؤ اور غیر مستحکم سیاست پاکستان کو درپیش خطرات میں اضافہ کرے گی، انتخابات کے دوران موبائل فون سروس کی معطلی، نتائج کے اجرا میں تاخیر، بڑے پیمانے پر احتجاج، ایک مہلک بم دھماکے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے میں ناکامی سے بھرے الیکشن نے ملک کے اندر تناؤ کو بڑھا دیا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ عمران خان پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان ہیں اور یہی بات طاقتور فوج اور عمران خان کے درمیان اختلافات پیدا کیے ہوئی ہے۔
رپورٹ میں دونوں فریقوں کے درمیان کشیدگی کے بڑھتے رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سیاستدانوں اور حامیوں کے خلاف بھاری فوجی کریک ڈاؤن کا ایک اور دور شروع ہو سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مخلوط حکومت کی کمزوری بھی اس میں شامل ہے۔
آئی آئی ایف نے کہا کہ پیپلز پارٹی سیاسی طور پر مشکل اصلاحات پر دستخط کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے اور ان کی حمایت کے بغیر مسلم لیگ (ن) کے لیے آگے بڑھنا مشکل ہے، جو کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے یا اسے طول دے سکتا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ تاریخ بھی حکومت یا آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے لیے اچھی نہیں رہی، آج تک پاکستان میں کسی بھی وزیر اعظم نے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل نہیں کی، جب کہ پاکستان اس وقت 1958 سے لے کر اب تک اپنے 23 ویں آئی ایم ایف پروگرام میں ہے، یہ ایک خوفناک ٹریک ریکارڈ ہے جس کے جلد ٹوٹنے کے کوئی آثار نہیں دکھتے ہیں۔
آئی آئی ایف کے مطابق تقریباً 90 ارب ڈالر عوامی قرضے مالی سال 24 میں اپنی مدت مکمل کرنے والے ہیں، جس کے ایک بڑے حصے کی رول اوور ہونے کی توقع ہے۔
فنانسنگ کی یہ نازک تصویر آئی ایم ایف کے ایک نئے پروگرام کو مزید ضروری بناتی ہے، خاص طور پر اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ جن ممالک نے پہلے پاکستان کو سرکاری قرضہ دینے میں مدد کی جیسے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین نے اب فنانسنگ کو آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔