افغانستان کے ساتھ مسلح تصادم نہیں چاہتے، خواجہ آصف
پاکستان کی جانب سے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے کے چند دن بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اسلام آباد پڑوسی ملک کے ساتھ مسلح تصادم نہیں چاہتا ہے۔
بدھ کو وائس آف امریکا میں شائع ہونے والے انٹرویو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ طاقت کا استعمال آخری حربہ ہے، ہم افغانستان کے ساتھ کوئی مسلح تصادم نہیں چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ 18 مارچ کو دفتر خارجہ نے بتایا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں کے اندر ’انٹیلی جنس پر مبنی معلومات کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں‘ کیں جبکہ اس سے چند گھنٹے قبل افغان عبوری حکومت نے کہا تھا کہ اس کی سرزمین پر کیے گئے فضائی حملے میں 8 افراد مارے گئے۔
گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ حکومت سرحد پار سے کسی قسم کی دہشت گردی برداشت نہیں کرے گی، انہوں نے ہمسایہ ممالک کو بھی دعوت دی تھی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے مل کے بیٹھیں۔
وائس آف امریکا کے ساتھ پاکستانی حملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا ایک پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے کہ سرحد پار دہشت گردی بہت بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کابل میں افغان عبوری حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ہم اس طرح ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔
وزیر دفاع نے خبردار کیا کہ اسلام آباد اس راہداری کو روک سکتا ہے جو اس نے افغانستان کو بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے فراہم کی تھی، خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر کابل افغان سرزمین پر سرگرم پاکستان مخالف دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہا تو اس کو سہولت فراہم کرنا بند کر دے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر افغانستان ہمارے ساتھ دشمن جیسا سلوک کرتا ہے تو ہم انہیں تجارتی راہداری کیوں دیں؟
خواجہ آصف نے فروری 2023 میں ان کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد کے دورہ کابل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے طالبان وزرا سے کہا تھا کہ وہ کالعدم عسکریت پسند تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ماضی میں کیے گئے احسانوں کی وجہ سے کابل کے ہاتھ نہ باندھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے (ٹی ٹی پی) نے آپ پر احسان کیا ہے اور آپ ان کے شکر گزار ہیں، تو ان پر قابو رکھیں، انہیں اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہمارے ساتھ جنگ شروع نہ کرنے دیں۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ اگر وہ ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں، تو ہم بھی جوابی کارروائی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
خواجہ آصف نے الزام لگایا کہ کابل ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف اس لیے کام کرنے دے رہا ہے تاکہ ان کے اپنے ارکان کو عسکریت پسند دعش گروپ کے مقامی باب میں شامل ہونے سے روکا جا سکے، جسے داعش- خراساں باب کہا جاتا ہے۔
وائس آف امریکا کی شائع کردہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ خواجہ آصف نے پیر کو پاکستان کی جانب سے کیے گئے حملوں پر بیجنگ کی حمایت کی کمی کے تاثر کو مسترد کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ دنیا ہماری تعریف کرے، جو ہمارے مفاد میں ہے وہی ہمارے لیے کافی ہے، ہم اپنے مفاد کا تحفظ کر رہے ہیں، اس سے قطع نظر کہ کوئی ہماری تعریف کرے یا نہ کرے۔