پیٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں 11 روپے فی لیٹر تک اضافے کا امکان
پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 16 فروری سے اگلے پندرہ روز کے لیے 4 تا 11روپے فی لیٹر اضافے کا امکان ہے، جس کی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور امپورٹ پریمیم کا بڑھنا ہے، اس کے سبب شرح تبادلہ میں معمولی بہتری کے اثر ات زائل ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ 31 جنوری کو حکومت نے عام انتخابات سے قبل پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 13 روپے 55 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 2 روپے 75 پیسے فی لیٹر کا اضافہ کردیا تھا، جس کے بعد پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 272 روپے 89 پیسے اور ڈیزل کی 278 روپے 96 پیسے ہو گئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی عالمی منڈیوں میں قیمتیں گزشتہ 15 دن کے دوران بڑھی ہیں، اس کے علاوہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو امپورٹ پریمیم کی مد میں بھی زائد ادائیگی کرنی پڑی، حالانکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ ہوا۔
نتیجتاً ڈیزل 9 تا 11 روپے فی لیٹر اور پیٹرول 4 روپے مہنگا ہو سکتا ہے، تاہم اس کا انحصار شرح تبادلہ کے حساب پر ہوگا، اسی طرح مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتوں میں بھی معمولی اضافے کا امکان ہے۔
حکام نے بتایا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پیٹرول کی قیمت 88.7 ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 1.2 ڈالر بڑھ کر 89.9 ڈالر فی بیرل ہوگئی، اسی طرح ڈیزل 3.5 ڈالر مہنگا ہو کر 98.4 ڈالر سے 101.82 ڈالر فی بیرل ہوگیا، اس کے برعکس امریکی کرنسی کے مقابلے میں روپے کی قدر تقریباً 40 پیسے بڑھی، اور پاکستانی کرنسی فروری کے نصف تک 280 کے برعکس 279.7 روپے پر آگئی۔
مزید کہا کہ پی ایس او کی جانب سے کارگو کا پریمیم پیٹرول کے لیے 9.5 ڈالر سے بڑھ کر 9.7 ڈالر فی بیرل اور ڈیزل کے لیے 6.5 ڈالر فی بیرل پر برقرار رہا۔
حکومت پہلے ہی پیٹرول اور ڈیزل دونوں پر پہلے ہی 60 روپے فی لیٹر ڈیولپمنٹ لیوی وصول کر رہی ہے، یہ قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ حد ہے، عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ کیے گئے وعدے کے تحت رواں مالی سال میں حکومت کا پیٹرولیم لیوی کی مد میں 869 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے، لیکن یہ پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر) کے دوران 475 ارب روپے حاصل کر چکی ہے۔
حکومت کو رواں مالی سال کے اختتام تک اس مد میں 970 ارب روپے وصول کرنے کی توقع ہے، حالانکہ نظر ثانی شدہ ہدف بڑھ کا 920 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
پیٹرول کا زیادہ تر استعمال نجی ٹرانسپورٹ، چھوٹی گاڑیوں، رکشوں اور موٹرسائیکلوں میں ہوتا ہے، جس سے کم اور متوسط آمدنی والوں کے بجٹ پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔
اس کے برعکس ڈیزل کی قیمت کا مہنگائی پر زیادہ اثر ہوتا ہے، کیونکہ اس کا استعمال ہیوی ٹرانسپورٹ، ٹرینوں، زرعی انجنوں، جیسا کہ ٹرک، بسوں، ٹریکٹرز، ٹیوب ویلز اور تھریشرز میں ہوتا ہے، اور یہ خاص طور پر سبزیوں اور دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
حکومت پیٹرول اور ڈیزل دونوں پر تقریباً 82 روپے فی لیٹر ٹیکسز وصول کر رہی ہے، اگرچہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات سے کوئی سیلز ٹیکس نہیں لے رہی تاہم اس نے دونوں مصنوعات پر 60 روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی عائد کر رکھی ہے، حکومت پیٹرول اور ڈیزل پر تقریباً 17 سے 20 روپے فی لیٹر کسٹم ڈیوٹی بھی لے رہی ہے۔
پیٹرول اور ڈیزل ریونیو حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ ہے، جس کی ماہانہ فروخت تقریباً 7 سے 8 لاکھ ٹن ہے، جبکہ مٹی کے تیل کی ماہانہ کھپت صرف 10 ہزار ٹن ہے۔