اداریہ: سائفر کیس ہماری سیاسی، سفارتی اور قانونی تاریخ کا تلخ باب
یہ سب کچھ نوشتہ دیوار تھا۔ آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی خصوصی عدالت، سائفر کیس کی سماعت میں ضابطوں کو بظاہر نظرانداز کرتے ہوئے جتنی عجلت سے کام لے رہی تھی اسے دیکھتے ہوئے اسی طرح کے فوری فیصلے کی توقع کی جارہی تھی۔
گزشتہ روز آنے والے فیصلے میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور یہ سزا ایسے موقع پر سنائی گئی جب ایک ہفتے بعد ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔
اڈیالہ جیل کے اندر اس مقدمے کی سماعت کرنے والے خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ اس دوران ملزمان، جو اب سزا یافتہ مجرم ہیں، ٹرائل سے متعلق اپنے حقوق سے انکار پر احتجاج کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ دو مواقع پر اسی کیس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا تھا اور ہر بار کیس کو چلانے میں طریقہ کار کی بے ضابطگیوں کو نوٹ کیا گیا تھا۔
ایسا نہیں لگتا کہ تیسری مرتبہ یہ مقدمہ مختلف طریقے سے چلا ہے اور بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ جب بھی اس فیصلے پر اپیل ہوگی تو شاید اعلیٰ عدالتیں خصوصی عدالت کے فیصلے کی توثیق نہ کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ماضی میں ہونے والی سرزنش کو دیکھتے ہوئے یہ سوال بنتا ہے کہ خصوصی عدالت اس معاملے کو اتنی عجلت میں ختم کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ دونوں سیاستدانوں کے خلاف سزائے موت مانگی گئی تھی، صورتحال کئی زیادہ تحمل کی متقاضی تھی۔
اس کے بجائے گزشتہ ہفتے کے آخر میں کچھ عجیب و غریب پیش رفت ہوئی۔ جج نے مدعا علیہان کے لیے ان کی رضامندی کے بغیر سرکاری وکیل مقرر کیا اور بعد میں مبینہ طور پر مدعا علیہان کو استغاثہ کے گواہوں سے جرح کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ اسی دوران دونوں ملزمان کی جانب سے مقرر کردہ قانونی ٹیموں نے شکایت کی کہ انہیں بار بار کارروائی تک رسائی سے روکا گیا۔
مقدمہ نمٹانے کے لیے پیر کے روز ایک تیز رفتار اور طویل سماعت ہوئی جو رات گئے تک جاری رہی۔ ہر چیز سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے مقدمے کی سماعت مکمل کرنے اور فیصلہ سنانے کے لیے کسی قسم کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی گئی ہو۔
کبھی عمران خان نے ایک بڑے جلسے میں خطاب کے دوران پوڈیم سے کاغذ لہراتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف ایک سازش کا پردہ فاش کیا ہے، اس دن سے لے کر ریاستی راز افشا کرنے میں انہیں مجرم ٹھہرائے جانے تک سائفر کا معاملہ ہماری سفارتی، قانونی اور سیاسی تاریخ کے ایک تلخ دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
اس تنازع کے فوری نتائج کے طور پر ہم نے دیکھا کہ امریکا کے ساتھ پہلے سے ہی خستہ حال تعلقات بغیر کسی وجہ کے مزید بگڑ گئے۔ سیاسی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے لیے عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں سازش کے بیانیے سے زیادہ فائدہ مند تو معاشی معاملات سنبھالنے میں ان کے مخالفین کی ناکامی ثابت ہوئی۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف جو بھی مقدمہ ہو، اسے جلد بازی میں نمٹا کر ناقابل تلافی طور پر کمزور کر دیا گیا ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہوا؟ اس ڈرامے میں تمام کرداروں کی طرف سے دکھائی جانے والے کم نظری پر حیرانی ہی ہوتی ہے۔
یہ اداریہ 31 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔