عمران خان کیخلاف سائفر کیس: کب، کیا ہوا؟
سائفر کیس میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنادی گئی ہے۔
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں کب، کیا ہوا؟ اِس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سائفر کا معاملہ پہلی بار 27 مارچ 2022 کو اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ایک جلسے میں عوامی سطح پر اٹھایا تھا، جلسے کے دوران عمران خان نے اپنی جیب سے خط نکال کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ تھی اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔
مبینہ طور پر یہ سائفر 7 مارچ 2022 کو اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور اس پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے ایک روز قبل بھیجی گئی تھی۔
بعد ازاں پی ٹی آئی حکومت نے اس سفارتی کیبل کو اپنا اقتدار ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا تھا۔
اجلاس میں مراسلے کو پاکستان کے معاملات میں ’کھلی مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے اس کا سفارتی طور پر جواب دینے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔
9 اپریل 2022 کی رات قومی اسمبلی میں اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگئی تھی، جس کے بعد عمران خان ملک کے وہ پہلے وزیراعظم بن گئے جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔
حکومت کی تبدیلی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اور اجلاس ہوا تھا جس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
مرکزی ملزم قرار
یکم اکتوبر 2022 کو وفاقی کابینہ نے عمران خان و دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی تھی اور اس معاملے کی تحقیقات وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے سپرد کی گئیں۔
5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
5 اگست 2023 کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو سرکاری تحائف کی تفصیلات چھپانے سے متعلق توشہ خانہ کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔
20 اگست 2023 کو ایف آئی اے نے شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا اور انہیں سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں نامزد کردیا۔
29 اگست 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا، تاہم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم کو جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔
30 ستمبر 2023 کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔
ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔
اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔
گزشتہ برس 23 اکتوبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کردی تھی۔
25 اکتوبر کو عمران خان نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دی تھی۔
21 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جاری جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی انٹراکورٹ اپیل کو منظور کرتے ہوئے جیل ٹرائل کا 29 اگست کا نوٹی فکیشن غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔
بعدازاں 23 نومبر کو سائفر کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 28 نومبر کو اسلام آباد کے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) میں پیش کرنے کی ہدایت کردی تھی۔
28 نومبر کو عمران خان کو خصوصی عدالت میں پیش کرنے سے اڈیالہ جیل حکام نے سیکیورٹی خدشات کے سبب معذرت کرلی تھی، عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا تھا کہ کیس کا اوپن ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہی ہوگا۔
یکم دسمبر کو وفاقی وزارت داخلہ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔
2 دسمبر کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی کارروائی اڈیالہ جیل میں دوبارہ شروع ہوئی تاہم جیل حکام نے بیشتر صحافیوں کو اوپن ٹرائل میں شرکت سے روک دیا، سماعت کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی حاضری لگائی گئی جس کے بعد سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی تھی۔
4 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو کیس کے نقول فراہم کر دیے گئے تھے، جج نے کیس کی مزید سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف 12 دسمبر کو فردِ جرم عائد کی جائے گی۔
13 دسمبر کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف فردِ جرم عائد کردی گئی تھی۔
23 جنوری کو خصوصی عدالت میں زیر سماعت سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف 25 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے۔
گزشتہ روز 29 جنوری کو خصوصی عدالت میں زیر سماعت سائفر کیس میں رات گئے تک جاری رہنے والی کارروائی کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف 25 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے۔
آج ہونے والی سماعت کے آغاز پر ملزمان بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو دفعہ 342 کا سوال نام دیا گیا جس پر بانی پی ٹی آئی نے 342 کے تحت اپنابیان عدالت میں ریکارڈ کروایا۔
بعدازاں سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید با مشقت کی سزا سنا دی گئی۔