ایران نے اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ڈرون حملے کے الزامات مسترد کردیے
ایران نے اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ڈرون حملے میں ایران کے ملوث کے الزامات کو مسترد کردیے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ اردن میں امریکی فوجی اڈے پر حملے سے ایران کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایران نے امریکا اور برطانیہ کی جانب سے اس پر عائد کردہ الزامات کو علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک اور 34 زخمی ہو گئے تھے۔
حماس نے کہا تھا کہ فوجیوں کی ہلاکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی جنگ جاری رہنے کی صورت میں اگر امریکا، اسرائیل کی پشت پناہی کا سلسلہ جاری رکھتا ہے تو اسے پوری مسلم دنیا سے متصادم ہونا پڑ سکتا ہے۔
یہ حماس اور اسرائیل کے درمیان ساڑھے تین ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے دوران مشرق وسطیٰ میں پہلی بار کسی حملے میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی تھی اور اس واقعے کے بعد خطے میں تناؤ مزید بڑھنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔
اس حملے پر رد عمل دیتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ابھی ہم اس حملے کے حوالے سے حقائق اکٹھا کر رہے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ حملہ شام اور عراق میں سرگرم ایران کے حمایت یافتہ شدت پسند گروپوں نے کیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہم دہشت گردی سے لڑنے کے ان کے عزم کو جاری رکھیں گے اور اس میں کوئی شک نہیں، ہم تمام ذمہ داروں سے ایک ساتھ اور اپنی پسند کے مطابق حساب کتاب کریں گے۔
حملے کے بعد حماس کے ترجمان سمیع ابو زہری نے کہا تھا کہ فوجیوں کا قتل امریکی انتظامیہ کے لیے ایک پیغام ہے کہ اگر غزہ میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام نہیں رکتا، تو اسے پوری مسلم دنیا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سمیع ابو زہری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ غزہ پر امریکی و صہیونی جارحیت کا تسلسل جاری رہا تو علاقے کے بڑی تباہی سے دوچار ہونے کا خدشہ ہے۔
پینٹاگون کے مطابق اکتوبر کے وسط سے اب تک عراق اور شام میں امریکی اور اتحادی افواج کو 150 سے زائد حملوں میں نشانہ بنایا جا چکا ہے اور واشنگٹن نے دونوں ممالک میں جوابی حملے کیے ہیں۔