ماہ رنگ بلوچ نے جبری گمشدگیوں کے خلاف تحریک کو ’انقلاب‘ قرار دے دیا
اسلام آباد میں ایک ماہ طویل احتجاجی دھرنا ختم کرنے کے 4 روز بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے گزشتہ روز ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ایک ’انقلاب‘ برپا ہو رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کے شاہوانی اسٹیڈیم میں اپنے خطاب کے دوران ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے جبری گمشدگیوں اور آپریشنز کے خلاف جاری تحریک کو ایک تاریخی لمحہ قرار دیا۔
جلسے میں صوبے کے مختلف علاقوں سے خواتین، سیاسی کارکنوں اور طلبہ سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ آج شرکا نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کی جدوجہد میں اپنی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ ہیں، ہم آپ کی وجہ سے فخر کے ساتھ اپنا سر بلند رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے عوام گزشتہ 75 برس سے ریاست کی جانب سے ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، اقتدار میں رہنے والے ’گونگے اور بہرے‘ ہیں جو عوام کی بات نہیں سنتے، اُن کے پاس ہتھیار ہیں لیکن ہم مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے مظاہرین کے خلاف اپنے تمام وسائل استعمال کیے لیکن ہم نے اپنے مطالبات سے باز آنے سے انکار کردیا، بلوچستان کی بیٹی ہونے کے ناطے میں عوام سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اس عوامی تحریک کو جاری رکھیں کیونکہ یہ ہمارا مینڈیٹ ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ صوبے بھر میں لوگ اس تحریک کی حمایت کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ کوئی دھرنا یا روایتی جلسہ نہیں تھا بلکہ یہ نوکنڈی سے پاروم اور کوہ سلیمان سے مکران تک بلوچ عوام کی آواز تھی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچ ایک نظریاتی قوم ہے اور ہماری تحریک نے ریاست کی طرف سے مسلط خوف کی دہائیوں پرانی بیڑیاں توڑ دی ہیں، آج کے اجتماع میں ’انقلاب کی خوشبو‘ ہے، جو ’شہیدوں کا خواب‘ تھا، ہماری تحریک بلوچستان کی بقا کے لیے ہے اور وہ اس کا دفاع کرتے رہیں گے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ اسلام آباد میں احتجاج کے دوران بزرگ خواتین نے صرف یہ درخواست کی کہ اُن کے اپنے پیاروں کو عدالتوں میں پیش کر دیا جائے لیکن آئینِ پاکستان انہیں انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے قاتلوں کو اسلام آباد میں ہمارے سامنے بٹھایا گیا، اسلام آباد کے نام نہاد حکمران بلوچ عوام کو انصاف فراہم نہیں کر سکتے۔
قبل ازیں جمعہ کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر مظاہرین کی وفاقی دارالحکومت سے واپسی پر کوئٹہ کے علاقے سریاب میں ہزاروں کے ہجوم نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔
احتجاجی مارچ کا آغاز بالاچ مولا بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے بعد تربت سے ہوا تھا جب کہ مبینہ قتل کا ذمہ دار محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو قرار دیا گیا تھا، مظاہرین نے ملوث اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے لانگ مارچ کا آغاز تربت سے کیا تھا اور مارچ کا آغاز کرتے ہوئے شرکا مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انہوں نے نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا جب کہ طلبہ، سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے محافظوں نے جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے مظاہرین کے مطالبے کی حمایت کی۔
علاوہ ازی مظاہرین نےلاپتا افراد کے قتل کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی کیا۔
23 جنوری کو بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف اسلام آباد میں جاری اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔