• KHI: Zuhr 12:37pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:03pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 5:12pm
  • KHI: Zuhr 12:37pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:03pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 5:12pm

’محتاط چلنا ہوگا، اداروں کے درمیان آئینی توازن خراب نہ ہو‘، شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ محفوظ

شائع January 23, 2024
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ نے سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل کا فیصلہ محفوظ کرلیا، دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ محتاط چلنا ہوگا، کہیں اداروں کے درمیان قائم آئینی توازن خراب نہ ہو۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر خواجہ حارث روسٹر پر آگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میں فیض حمید اور عرفان رامے کا وکیل ہوں۔

کمرہ عدالت میں موجود وسیم سجاد نے کہا کہ میں سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ انور کانسی کا وکیل ہوں۔

شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے معاملے کی فیئر انکوائری ہونی چاہیے، سپریم جوڈیشل کونسل صدر پاکستان کو بنا انکوائری کوئی رپورٹ پیش نہیں کر سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل پر الزام کیا ہے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ میرے مؤکل کے اوپر تقریر کرنے کا الزام ہے، سپریم کورٹ میرے مؤکل کے خلاف حکم کو ختم کرے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ الزامات کو تسلیم کرتے ہیں یا مسترد؟ وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہم نے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سابقہ رجسٹرار نے جواب جمع کروادیا ہے، اِس پر حامد خان نے کہا کہ سابقہ رجسڑار نے تو کہا ہے کہ انہوں نے معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا تھا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اب مقدمہ کی کارروائی کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟ حامد خان نے کہا کہ آنے والے جوابات سے میرا کیس واضح ہو گیا، کونسل نے کوئی انکوائری نہیں کی تھی، انکوائری ہوتی، گواہان پیش ہوتے، جرح کی اجازت دی جاتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 209 (6) کے تحت کونسل صدر کو بغیر تحقیقات مجھے ہٹانے کی سفارش نہیں کر سکتی تھی، کونسل کا شوکت صدیقی کو ہٹانے کا حکم کالعدم کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے کہا تھا فیکچوئل (حقائق پر مبنی) انکوائری ہی نہیں ہوئی تھی، اب سپریم کورٹ کا یہ 5 رکنی بینچ کیسا فیصلہ دے سکتا ہے؟

حامد خان نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیر آئینی قرار دے۔

’سکے کو ہوا میں پھینک کر فیصلہ نہیں کر سکتے‘

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک سکے کو ہوا میں پھینک کر فیصلہ نہیں کر سکتے، اگر الزامات سچ ثابت نہیں ہوتے تو کیا ہوگا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر یہ طے نہیں ہوتا کہ الزامات سچے ہیں یا جھوٹے، اس کے بغیر ہم کس طرف جا سکتے ہیں، ہم ان کیسز کے ذریعے مثال قائم کرنا چاہتے ہیں، الزامات پبلکلی (اعلانیہ) لگائے گئے، اگر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں انکوائری کے بعد تو کیا جج کو ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن پر الزامات لگایا گیا ہم نے اُن کو فریق بنانے کا کہا، سچ کی کھوج کون لگائے گا اب، ہم مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے ہیں؟

حامد خان نے کہا کہ شوکت صدیقی کے خلاف پہلی کارروائی کو کالعدم قرار دیاجائے، اس کے بعد اس معاملے پر کمیشن بنا کر انکوائری کرائی جائے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو واپس بھیجا جا سکتا ہے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ جی، معاملہ واپس کونسل کو بھیجا جا سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سمجھ لیں کہ الزامات درست ہے لیکن ایک جج کے لیے مناسب تھا کہ ایسے بیان دیتے؟ آپ تقریر سے تو انکاری نہیں؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا کسی جج کو ایسی تقریر کرنے کی اجازت ہے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ تقریر سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر الزامات درست بھی ہیں تو کیا شوکت عزیز صدیقی کا بطور جج طریقہ کار مناسب تھا؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تقریر بھی 2 طرح کی ہوتی ہیں، جج پر تقریر کرنے پر پابندی نہیں ہے، ایسا ہوتا تو بار میں تقاریر پر کئی ججز فارغ ہوجاتے، مسئلہ شوکت عزیز صدیقی کی تقریر میں اٹھائے گئے نکات کا ہے، برطانیہ میں ججز انٹرویو بھی دیتے ہیں، امریکا میں سپریم کورٹ ججز مباحثوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا عدالت خود اس معاملے کی تحقیقات کر سکتی ہے؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس آئینی طور پر ریمانڈ ہوسکتا ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس واپس نہیں بھیجا جا سکتا، شوکت عزیز صدیقی ریٹائر ہوچکے، بطور جج بحال نہیں ہوسکتے، سپریم جوڈیشل کونسل اب شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ نہیں دیکھ سکتی۔

’شوکت صدیقی نے شہرت حاصل کرنے کے لیے تو تقریر نہیں کی ہوگی‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کالعدم ہوئی تو الزامات درست تصور ہوں گے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ فیض حمید پر تقریر میں کوئی الزام لگایا گیا نہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے، جوڈیشل کونسل نے کہا شوکت عزیز صدیقی نے عدلیہ کو بے توقیر کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدلیہ کی بے توقیری کا معاملہ کہاں سے آ گیا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ جج کو پبلک میں جا کر تقریر نہیں کرنی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی پر ضابطہ اخلاق کی کس شق کی خلاف ورزی کا الزام لگا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ جج کو عوامی اور سیاسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ شوکت عزیز صدیقی نے شہرت حاصل کرنے کے لیے تو تقریر نہیں کی ہوگی۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا کہ آئینی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملہ واپس بھیجا جا سکتا ہے؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملہ واپس نہیں بھیجا جا سکتا، شوکت عزیز صدیقی ریٹائر ہوچکے، بحال نہیں ہوسکتے، سپریم جوڈیشل کونسل اب شوکت عزیز صدیقی کے معاملے کا جائزہ نہیں سکتی۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کالعدم ہوئی تو الزامات درست تصور ہوں گے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ فیض حمید پر تقریر میں یا سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے کوئی الزام نہیں لگایا گیا، شوکت عزیز صدیقی کی اپنی تقریر ہی کافی ہے کہ انھوں نے مس کنڈکٹ کا مظاہرہ کیا، تقریر میں عدلیہ کی تضحیک کی گئی۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ تقریر کرکے کیسے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی، متعلقہ شق دکھائیں، آپ ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ پڑھ لیں۔

’قوم کو بھی پتا چلنا چاہیے الزامات سچے ہیں یا جھوٹے‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ تقریر کو پبلسٹی نہیں بلکہ نشاندہی کرنے والے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، اگر ایک ادارے میں کرپشن ہو تو کسی جج کو کیا کرنا چاہیے؟ جواب میں خواجہ حارث نے کہا کہ اُسے اپنے چیف جسٹس کو بتانا چاہیے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کسی چیف جسٹس کی بات تسلیم کرنے اور کسی جج کی بات تسلیم نہ کرنے کا کوئی معیار تو ہونا چاہیے، قوم اب کافی کچھ برداشت کر چکی ہے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ہماری تشویش ادارے کی ساکھ سے متعلق ہے، قوم کو سچ کا علم ہونا چاہیے، کیا آپ نہیں چاہتے سچ سامنے آنا چاہیے، ہم کارروائی کو کیسے آگے بڑھائیں؟

خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ادارے لوگوں کی خدمت کے لیے ہوتے ہیں، قوم کو بھی پتا چلنا چاہیے الزامات سچے ہیں یا جھوٹے۔

دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے اپیل دائر کرنے سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے ہماری اپیل پر آج یا کل نمبر لگ جائے گا، عافیہ شیربانو کیس فیصلہ کالعدم ہوجائے تو معاملہ کونسل میں جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شوکت صدیقی کیس میں ان کی مراعات بحال کرنے کا آرڈر بھی ہوسکتا ہے، وسیع تناظر میں دیکھنا ہو تو معاملہ کونسل میں جا سکتا ہے، جج کو انکوائری کے بغیر ہٹایا نہیں جا سکتا یہ بنیادی حق کا معاملہ ہے، عافیہ شیربانو کیس میں ہماری اپیل کو اس کیس سے یکجا کیا جائے، عافیہ شیربانو فیصلہ کالعدم کر کے ہی معاملہ کونسل کو واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

دریں اثنا جسٹس (ر) انور کانسی کے وکیل وسیم سجاد روسٹرم پر آگئے، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کیس ریمانڈ بیک کرنے سے آئین نہیں روکتا، عدالت مکمل انصاف کے دائرہ اختیار میں بھی جا سکتی ہے۔

حامد خان نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس تھا جہاں جج کو انکوائری کے بغیر ہٹایا گیا، ایک تفصیلی فیصلہ آنا چاہیے کہ جج کو ہٹانے سے پہلے انکوائری کیوں ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 1956 اور 1962 کے آئین میں صدارتی ریفرنس کے بغیر جج کو ہٹایا نہیں جا سکتا تھا، 1973 کے آئین میں بھی پہلے یہی شرط تھی، 2005 میں پہلی بار آئین میں صدارتی ریفرنس کے علاوہ طریقہ کار متعارف کرایا گیا۔

’تقریر واضح ہے، موجود ہے، پھر بھی انکوائری کی ضرورت ہے؟‘

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب ایک جج کی تقریر واضح ہے اور موجود ہے کیا پھر بھی انکوائری کی ضرورت ہے؟ شوکت عزیز صدیقی پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کے کیس میں انکوائری لازم ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ شوکت صدیقی کے خلاف کسی نے شکایت کی یا رجسٹرار نے خود سب کچھ کونسل کو بھیجا؟ رجسٹرار کس حیثیت میں جج کے خلاف کونسل کو نوٹ لکھ سکتا ہے؟

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ شوکت صدیقی کیس میں سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا، کیا جب کونسل ازخود کارروائی کرے تو بھی انکوائری کرنا ہوگی؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کونسل نے خود کیسے کارروائی کا آغاز کیا؟ ہمیں رجسٹرار آفس کا نوٹ دکھائیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ سیکریٹری کونسل کیسے ہو سکتا ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہو سکتا ہے، کونسل نے ہی سیکرٹری کونسل کو کہا ہو۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کونسل میں کتنی مرتبہ کیس لگا؟ حامد خان نے جواب دیا کہ صرف ایک مرتبہ کیس لگا جس میں شوکت صدیقی کو بلایا گیا تھا۔

جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ دیکھیں تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کہ شوکت صدیقی کو موقع نہیں دیا گیا، 2 ماہ سے زیادہ کارروائی چلی، ان کے جوابات کا جائزہ بھی لیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ پر الزام یہ نہیں تھا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں یا غلط، آپ پر الزام تھا کہ پبلک میں عدلیہ کو بدنام کیا، آپ نے اس تقریر سے انکار تو نہیں کیا تھا۔

حامد خان نے کہا کہ جب شوکت صدیقی کے الزامات آئے تو جسٹس (ر) انور کاسی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری تھی، شوکت صدیقی کے الزامات مسترد کرنے پر انور کانسی کو بری کر دیا گیا۔

’سپریم کورٹ، سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی آئینی ادارے کی نگران نہیں ہے‘

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ حامد خان صاحب! ہم سپریم جوڈیشل کونسل پر ایسے انگلیاں نہیں اٹھائیں گے، سپریم کورٹ، سپریم جوڈیشل کونسل پر واچ ڈاگ نہیں ہے، ہمیں آئین سازوں کے بنائے بیلنس کو برقرار رکھنا ہو گا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آپ کے خلاف ریفرنس کی بنیاد تقریر ہے، آپ اس تقریر کے متن سے انکار نہیں کر رہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک مضبوط آئینی باڈی ہے، آپ کہہ رہے تھے انکوائری کمیشن بنا دیں لیکن جوڈیشل کونسل کی موجودگی میں کمیشن بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ آرٹیکل 210 پڑھیں تو سپریم جوڈیشل کے پاس وسیع آئینی اختیارات ہیں، ہر آئینی باڈی یا ادارے کے پاس آزادانہ فیصلے کا حق ہے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ، سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی آئینی ادارے کی نگران نہیں ہے، سپریم کورٹ صرف آئینی خلاف ورزی کی صورت میں حرکت میں آ سکتی ہے، موجودہ کیس میں بہت محتاط چلنا ہو گا کہ کہیں اداروں کے درمیان قائم آئینی توازن خراب نا ہو، شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ بھی 50 سالوں تک عدالتی نظیر کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔

دریں اثنا سندھ بار کے وکیل صلاح الدین دورانِ سماعت ویڈیو لنک پر پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ کونسل کا مخصوص کردار ہے، اب جج ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ تو کیا اس جج کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ بغیر انکوائری ہم پوری کارروائی کیسے ختم کر سکتے ہیں؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ کی آئینی درخواست مفاد عامہ کے تحت دائر ہوئی، آپ اگر ایک جج کی بات کر رہے ہیں تو اس حساب سے آپ کی درخواست ہی قابل سماعت نہیں ہے۔

’سپریم جوڈیشل کونسل کے بغیر سابق جج کے خلاف فوجداری کارروائی کیسے ممکن ہے؟‘

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ سپریم کورٹ کمیشن تشکیل دے کر انکوائری کرائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار کیسے حاصل ہے کہ کمیشن تشکیل دیا جائے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ مفاد عامہ کے تحت کمیشن بنا سکتی ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ انکوائری ایکٹ کے تحت تو کمیشن صرف وفاقی حکومت ہی تشکیل دے سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں شوکت صدیقی کے الزامات پر الگ سے انکوائری ہوسکتی ہے، اگر الزامات غلط ثابت ہوئے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کا کالعدم شدہ فیصلہ بحال ہوجائے گا؟

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ الزامات غلط ثابت ہوئے تو شوکت صدیقی کے خلاف فوجداری کارروائی ہوسکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے بغیر سابق جج کے خلاف فوجداری کارروائی کیسے ممکن ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ ججز قانون سے بالاتر نہیں ہوتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کوئی بھی انکوائری کمیشن کیسے قائم کر سکتی ہے؟ کیا ججز کی قسمت کا فیصلہ ایس ایچ او کے ہاتھ میں دے دیں؟ مجھے تو یہ دلیل سمجھ نہیں آ رہی، کچھ آگے بڑھنے والی بات کریں، مناسب ہوگا اپنے نکات تحریری طور پر دیں۔

’ایک جج کے پنشن بحالی سے عدلیہ کی آزادی بحال ہو جائے گی؟‘

جسٹس عرفان سعادت خان نے استفسار کیا کہ کیا شوکت صدیقی مس کنڈکٹ کے مرتکب نہیں ہوئے؟ اس نکتے پر عدالت کی کوئی معاونت نہیں کی گئی، یہ تو سب کہہ رہے ہیں کہ انکوائری نہیں ہوئی۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اگر تقریر حقائق کے خلاف تھی تو شوکت صدیقی مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار محدود ہے، اگر عدالت چاہے تو کمیشن بنا کر شوکت صدیقی کے الزامات کی انکوائری کر سکتی ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 184 تین کے تحت معاملے کی انکوائری کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا ہم گواہان کے بیانات اور ان پر جرح کریں؟

بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ ہائی کورٹ بھی آرٹیکل 199 کے تحت یہ اختیار استعمال کرتی ہے تو سپریم کورٹ بھی کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے بیرسٹر صلاح الدین احمد سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کی رائے یا احساسات نہیں قانونی معاونت درکار ہے، آپ نے 184 تھری کی درخواست دائر کی تو صرف جج کی پنشن بحالی کی بات کیوں کر رہے ہیں؟

بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ریٹائرڈ جج کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ صرف ایک نکتے کا جائزہ لے رہے ہیں کہ انکوائری کیوں نہیں ہوئی تھی، ہم پرانے کورس کو درست کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر آپ ایک جج کی ذاتی حثیت میں پنشن بحالی چاہتے ہیں تو پھر آپ کی 184 تھری کی درخواست خارج کر دیتے ہیں، آپ کی درخواست سے مفاد عامہ کا کیا معاملہ طے ہوگا؟ کیا ایک جج کے پنشن بحالی سے عدلیہ کی آزادی بحال ہو جائے گی؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ تحریری جوابات جمع کرانے کے لیے کتنا وقت درکار ہے؟ شہرت کے لیے تقریر کی گئی یا نہیں یہ الزام بھی ہے۔

حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ اصول طے کر چکی ہے کہ جج کو مکمل انکوائری کا موقع ملنا چاہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 10اے شفاف ٹرائل کی بات کرتا ہے، کسی نائب قاصد کو بھی ہٹانے کے لیے پورا طریقہ کار طے شدہ ہے، ہم بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، انکوائری کو نظر انداز کرکے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو ایک لائن کھینچی ہے، سپریم کورٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل کے درمیان فرق کی لکیر کھینچی ہے، اداروں کی تضحیک کا سوال ہے، سوال یہ ہے کہ جج نے جو کہا سچ ہے یا سچ نہیں ہے، ملاقاتوں کی نفی کی گئی ہے، ہم ہوا میں طے نہیں کر سکتے کہ کون سچ کہہ رہا ہے کون سچ نہیں کہہ رہا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ ایک جج کو ہٹانا اتنا ہی آسان ہے تو یہ عدلیہ کی آزادی کیلئے خطرے کا سبب ہے، عوام کو سچ جاننے کا مکمل حق ہے، یہ عوامی معاملہ ہے، یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہم کونسل کو بھیج سکتے ہیں یا نہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم فیصلہ محفوظ کر رہے ہیں، اگر ضرورت سمجھیں تو کیس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر بھی کر سکتے ہیں۔

دریں اثنا عدالت نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید اور برگیڈیئر عرفان رامے کو نوٹس دیا گیا، خواجہ حارث پیش ہوئے اور جوابات جمع کرائے، جوابات میں الزامات کا جواب دیا گیا، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اپنا جواب جمع کرایا۔

حکمنامے میں عدالت نے وکلا سے مندرجہ ذیل 4 سوالات پر تحریری جوابات طلب کرلیے، سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ تمام فریقین کے وکلا تحریری معروضات جمع کرا سکتے ہیں۔

  • سوال نمبر ایک: اگر جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف انکوائری آئین و قانون کے تحت نہیں ہوئی تو اسکا کیا نتیجہ ہو گا؟
  • سوال نمبر 2: شوکت عزیز کی عمر 30 جون 2021کو 62 سال مکمل ہو چکی، اب اپیل منظور ہوئی تو کیا ریلیف دیا جا سکتا ہے؟
  • سوال نمبر 3: کیا سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملہ دوبارہ بھیج سکتی ہے؟
  • سوال نمبر 4: اگر کونسل کی کارروائی کی ضرورت نہیں تو کیا شوکت صدیقی کی تقریر بذات خود کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف نہیں؟

پسِ منظر

واضح رہے کہ 15 دسمبر 2023 کی سماعت میں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید، بریگیڈیئر (ر) عرفان رامے، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو نوٹس جاری کردیا تھا۔

گزشتہ روز 22 جنوری کو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس میں سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا تھا۔

سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی نے بھی کیس کے متعلق جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا ہے، جسٹس (ر) انور کاسی نے بھی اپنے جواب میں شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو مسترد کر دیا۔

اسی طرح برگیڈیئر (ر) عرفان رامے کا جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع ہوگیا اور انہوں نے بھی شوکت عزیز صدیقی کے الزامات اور ملاقات کی تردید کر دی۔

خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیق کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔

بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر ابتدا میں رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات لگائے گئے تھے تاہم فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے رجسٹرار کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔

جس کے بعد ان کی اپیل پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تھی جس پر انہوں نے جسٹس پاکستان کو مختلف خطوط لکھے جن میں کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

نومبر 2020 کے اختتام پر انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان کے نام بھی ایک خط لکھا تھا جو بظاہر ان کا تیسرا ایسا خط تھا جس میں کیس کی جلد سماعت کی استدعا کی گئی تھی۔

اس طرح کے ایک خط میں سابق جج نے لکھا تھا کہ ایک عام شہری/قانونی چارہ جوئی کرنے والے کے لیے موجود حقوق کا ان کے لیے انکار نہیں کیا جائے گا اور ان کے ساتھ شخصی نقطہ نظر کے ذریعے عدالتی دفتر کی جانب سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

اس خط کا موضوع شوکت عزیز صدیقی بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کے عنوان سے آئینی درخواست 2018/76 کے نمٹانے میں طویل تاخیر سے متعلق تھا۔

خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ وہ 11 اکتوبر 2018 سے دفتر سے نکالے گئے اور انہیں دوبارہ ملازمت بھی نہیں دی گئی۔

ساتھ ہی انہوں نے لکھا تھا کہ یہ عالمی سطح پر قانون کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتی ہے‘۔

سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے لکھا کہ ’میرے کیس میں اس کی خاص مثال ملتی ہے جہاں بینچ کے واضح احکامات کے باوجود درخواست کو کبھی خود سے مقرر نہیں کیا گیا اور ہر مرتبہ میں نے تحریری درخواستوں کے ذریعے آپ (چیف جسٹس) تک رسائی حاصل کی‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’میری حیرانی اور مایوسی کو 2 ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن دفتر کی جانب سے درخواست کو مقرر کرنے سے متعلق کوئی کارروائی نہیں کی گئی‘۔

کارٹون

کارٹون : 5 جولائی 2024
کارٹون : 4 جولائی 2024