مسئلہ فلسطین حل ہوجائے تو اسرائیل کو تسلیم کر سکتے ہیں، سعودی عرب
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اگر ایک جامع معاہدہ طے پا جائے جس میں فلسطینیوں کے لیے ریاست کا درجہ بھی شامل ہو تو سلطنت اسرائیل کو تسلیم کر سکتی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق شہزادہ فیصل بن فرحان نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے پینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس بات پر متفق ہیں کہ علاقائی امن میں اسرائیل کا امن بھی شامل ہے، لیکن یہ صرف فلسطینی ریاست کے ذریعے فلسطینیوں کے لیے امن سے ہی ہو سکتا ہے‘۔
اس سوال پر کہ کیا سعودی عرب اس کے بعد اسرائیل کو ایک وسیع سیاسی معاہدے کے حصے کے طور پر تسلیم کرے گا، شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ’یقینی طور پر‘۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے علاقائی امن کو یقینی بنانا ایک ایسی چیز ہے جس پر ہم امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور یہ غزہ کے تناظر میں زیادہ متعلقہ ہے۔
ریاض کی سوچ سے واقف دو ذرائع نے کہا کہ اسرائیل اور غزہ پر حکمرانی کرنے والے فلسطینی گروپ حماس کے درمیان گزشتہ سال اکتوبر میں تنازع سامنے آنے کے بعد سعودی عرب نے سلطنت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے امریکی حمایت یافتہ منصوبوں پر برف ڈال دی ہے اور اپنی سفارتی ترجیحات کو دوبارہ ترتیب دے رہا ہے۔
دونوں ذرائع نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ سعودی ۔ اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے امریکی حمایت یافتہ بات چیت میں کچھ تاخیر ہوگی، تعلقات معلوم پر لانے کو سلطنت کے لیے ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اس کے بدلے وہ امریکی دفاعی معاہدہ حاصل کرپائے گا۔
حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملے سے قبل اسرائیل اور سعودی کے رہنماؤں نے اشارہ دیا تھا کہ وہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی طرف مستقل طور پر آگے بڑھ رہے ہیں جو مشرق وسطیٰ کو نئی شکل دے سکتے ہیں۔