بلوچ مظاہرین کی گرفتاری، عدالت کا خواتین کو احتجاجی مظاہرین کے منتظمین کے حوالے کرنے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے آئی ٹین ہاسٹل میں موجود بلوچ خواتین کو بلوچ احتجاجی مظاہرین کے منتظمین کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے ملتوی کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئی ٹین میں موجود خواتین کو بلوچ احتجاجی مظاہرین کے منتظمین کے حوالےکیا جائے۔
ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی چیف جسٹس عامر فاروق کیس کی سماعت کی۔
عدالتی حکم پر آئی جی اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
دوسری جانب درخواست گزار کی جانب سے ایمان مزاری، عطاء اللہ کنڈی اور زینب جنجوعہ عدالت پیش ہوئے۔
آئی جی اسلام آباد نے عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ ہم نے مظاہرین کے لئے ٹرانسپورٹ کا نظام کیا۔
جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے گرفتار لوگوں کو کہاں اور کیوں بیجھا؟ وہ اسلام آباد میں جہاں گھومنا چاہیں، پرامن احتجاج کریں، یا واپس اپنے گھر جائے، ان کی مرضی ہے۔
عدالت نے آئی جی سے ایک بار پھر استفسار کیا کہ آپ نے گرفتار مظاہرین کو کہاں رکھا ہے؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ گرفتار خواتین آئی ٹین میں خواتین کے ہاسٹلز میں ہیں۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے جہاں ان کو رکھا ہے، وکیل کو جگہ کا پتہ دیں۔
جس پر درخواست گزار کے وکیل عطا اللہ کنڈی نے کہا کہ کل عدالت کے ساتھ غلط بیانی کی گئی کہ ہمارے پاس خواتین نہیں ہے، گرفتار خواتین گزشتہ رات وومن پولیس اسٹیشن میں تھیں۔
غلط بیانی پر وکیل درخواست گزار نے آئی جی اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کردی۔
پولیس افسر کی ’بدتمیزی‘ پر آئی جی اسلام آباد نے حامد میر سے معافی مانگ لی
چیف جسٹس عامر فاروق نے آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا، ایسا یہ نہیں ہوتا کہ آپ کچھ کریں گے اور وہ آگے سے چپ رہیں گے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ حامد میر سینئر صحافی ہیں ان کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اختیار کیا؟ آخر ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں؟
اس دوران گزشتہ رات پولیس افسر کی بدتمیزی پر آئی جی اسلام آباد کا سینیر صحافی حامد میر سے کمرہ عدالت میں معافی مانگ لی۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اگر حامد میر صاحب کے ساتھ میرے کسی افسر نے بدتہذیبی کی تو میں معافی چاہتا ہوں، صحافی اگر آئے تو ان کے ساتھ بدتمیزی نہیں ہونی چاہیے، تہزیب کا ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔
اس دوران ہیومین رائٹس کمیشن کے عہدیدار احمد بٹ نے کہا کہ ہمارے بچیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بسوں میں ڈالا گیا، جمہوری نظام میں احتجاج ہر کسی کا آئینی اور قانونی حق ہے، جو رویہ گزشتہ دو راتوں میں ہمارے بچوں بچیوں کے ساتھ کیا گیا، شاید ایسا پہلے کبھی ہوا ہو۔
بعدازاں چیف جسٹس نے وکیل درخواست گزار کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ’کنڈی صاحب آپ یہ سارا معاملہ دیکھ لیں، کوئی مسئلہ آئے تو میرے آفس سے رابطہ کرلیں۔‘
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وہ آج کی سماعت پر تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے، عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔
ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں؟ غیر ذمہ داری دکھائیں گے تو نقصان ملک کا ہوگا، چیف جسٹس
سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ حامد میر صاحب نے کہا کہ وزراء نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ سب کو رہا، عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ وزراء کی پریس کانفرنس کس وجہ سے تھی؟ جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ وفاقی حکومت نے مذاکرات کے لیے ایک تین رکنی کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے۔
جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر حکومت نے کمیٹی بنائی ہے تو ان کو زبردستی بھیجنے یا مارنے کی ضرورت کیا تھی؟ وہ یہاں احتجاج کرنے آئے تھے اور آپ ان کو واپس زبردستی بیجھتے ہیں، تو کیا ہوگا؟
چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیا کہ ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں؟ اگر ایک عام آدمی زیادتی بھی کرے تو پبلک آفس ہولڈر کو احتیاط کرنا چاہیے۔
عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی عام شہری کچھ غلط کررہا ہے اس کا مطلب نہیں کہ آپ اس کو ماریں، بلکہ ان سے بات کریں،اگر غیر ذمہ داری دکھائیں گے تو نقصان صرف آپ کا نہیں پورے اس ملک کا ہوگا۔
کیس کی ابتدائی سماعت
کیس کی ابتدائی سماعت کے دوران جونیئر پولیس عدالت میں پیش ہوئے تھے جس پر عدالت نے اظہار برہمی کا اظہار کیا تھا۔
درخواست گزار کے وکیل عطا اللہ کنڈی نے کہا تھا کہ ایس پی نے ہمارے وکلا کو واپس بلوچستان جانے کا کہا ہے کیونکہ انہیں وزیراعظم کی جانب سے ہدایات دی گئی ہیں، اس معاملے پر ہماری ان سے تین گھنٹے گفتگو ہوتی رہی۔
وکیل نے مزید کہا تھا کہ پولیس نے زبردستی تمام خواتین کو بسوں میں سوار کروا دیا، کچھ اسلام آباد میں طلبہ کو بھی زبردستی بسوں میں بیٹھا دیا بعدازاں اسلام آباد کی طالبات کو رہا کردیا گیا تھا۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ معاملہ دیکھ کر ڈرائیورز نے بسیں چلانے سے انکار کردیا، اس دوران آئی جی اسلام آباد تھانے پہنچے اور انہوں نے بھی کہا کسی طرح ان کو یہاں سے بھیجیں، اس کے بعد پولیس نے تھانے کے دروازے بند کردیے۔
درخواست گزار کے وکیل عطا اللہ کنڈی نے کہا تھا کہ صبح 5 بجے پولیس نے بیان جاری کیا کہ ہم نے ان کو بحفاظت ان کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔
اس دوران عدالت نے استفسار کیا تھا کہ پولیس کی طرف سے کون پیش ہوا ہے ؟
عدالت کے سوال پوچھنے پر سماعت کے دوران پولیس انسپکٹر عدالت کے سامنے پیش ہوئےتھے۔
پولیس انسپکٹر کے پیش ہونے پر عدالت نے ہدایات جاری کرتے ہوئےکہا تھا کہ آئی جی اسلام آباد کو بلوائیں یا سیکرٹری داخلہ کو بلوائیں، تمام لوگ کہاں ہیں ان کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
عدالت نے اسلام آباد پولیس کو حکم دیا تھا کہ اس معاملے میں آدھے گھنٹے کے اندر عدالت کو رپورٹ جمع کروایں۔
یاد رہے کہ لانگ مارچ کے منتظمین نے گزشتہ روز (21 دسمبر) بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
درخواست میں سیکریٹری داخلہ،آئی جی اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد درخواست میں فریق بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ تھانہ ترنول، رمنا، شالیمار، سیکریٹریٹ، ویمن تھانہ، مارگلہ کے ایس ایچ اوز کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
لانگ مارچ منتظمین سمی بلوچ اور عبد السلام نے وکیل ایمان مزاری کے ذریعے درخواست دائر کی تھیں۔
درخواست کے ساتھ مرد و خواتین ، یونیورسٹی طلبہ سمیت 68 گرفتار مظاہرین کے نام بھی شامل تھے، اس میں کہا گیا تھا کہ 6 دسمبر تربت سے اسلام آباد کے لئے لانگ مارچ شروع ہوا ، بلوچ جبری لاپتہ افراد کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی درخواستیں زیر التوا ہیں ، رات 86 کے قریب کے لانگ مارچ کے شرکا کو گرفتار کر لیا گیا۔
واضح رہے کہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچ خواتین کی قیادت میں گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت پہنچنے والے لانگ مارچ میں شرکا کے خلاف اسلام آباد پولیس نے رات گئے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے تمام بلوچ مظاہرین کو گرفتار کرلیا تھا۔
لانگ مارچ 20 دسمبر کو وفاقی دارالحکومت کے مضافات میں پہنچا تھا تاہم اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کو نیشنل پریس کلب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے شہر کے داخلی راستوں سمیت اہم راستوں پر ناکہ بندی کر دی تھی۔
اسلام آباد پولیس نے بلوچ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، پولیس نے آپریشن 26 نمبر چونگی اور نیشنل پریس کلب کے باہر کیا، اس دوران مظاہرین کے لگائے گئے ٹینٹ اور ساونڈ سسٹم اکھاڑ دئیے گئے۔
پولیسں نے واٹر کنین سے مظاہرین پر پانی بھی پھینکا، سیکٹر ایف سکیس میں آنسو گیس کی شیلنگ سے گھر میں موجود لوگ شدید متاثر ہوئے، بلوچ مظاہرین کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن رات کے پچھلے پہر کیا۔