شمالی علاقوں کے تاجروں کیلئے سرحد پار تجارت کے مواقعوں سے مالا مال ’شاہراہِ ریشم‘
ملک کے شمالی علاقوں میں آباد لوگوں کے لیے شاہراہ ریشم (جو کبھی مشرق اور مغربی ممالک کے درمیان تجارت کے لیے ایک بین الاقوامی شاہراہ سمجھی جاتی تھی) آج بھی موجود اور محفوظ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ راستہ پہاڑی علاقوں میں دورافتادہ مقامات پر مقیم تاجروں کے لیے بارڈر کی دوسری جانب آباد تاجروں سے رابطہ قائم کرنے کے نادر مواقع فراہم کرتا ہے۔
چین کا صوبہ سنکیانگ اس قدیم تجارتی راستے کا مرکز ہے، جو جدید دور کے پاکستان، افغانستان، ہندوستان، منگولیا، روس، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان سے منسلک ہے۔
خنجراب سے 400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تاریخی شہر کاشغر میں پاکستانی تاجروں کی ایک ابھرتی ہوئی کمیونٹی ہے جنہوں نے آسان ویزہ سسٹم اور گلگت بلتستان کے رہائشیوں کو دی گئی سہولیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں اپنی دکانیں قائم کی ہیں۔
گلگت بلتستان کے رہائشیوں کے لیے سنکیانگ کے علاقے کا سفر مقامی حکومت کی جانب سے جاری کردہ خصوصی بارڈر پاس کی بنیاد پر ممکن ہے۔
ہنزہ کے علاقے شمشال سے تعلق رکھنے والے گوہر علی خان تاشکرگان میں مقیم ہیں جہاں ان کی ایک دکان ہے۔
گوہر علی خان پاکستانی مصنوعات بشمول دستکاری، قیمتی پتھر، خشک میوہ جات فروخت کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہنزائیوں سے لے کر واخی برادری کے افراد تک ہزاروں افراد سنکیانگ کے مختلف علاقوں میں رہ رہے ہیں کیونکہ یہ برادری سرحد کے دونوں جانب موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ سنکیانگ میں درجنوں پاکستانی مردوں کے کاروبار ہیں جہاں وہ پاکستانی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہ جغرافیائی، روایتی، طرز زندگی، موسیقی، لباس اور کھانے میں مماثلتیں گلگت بلتستان کے رہائشیوں کو یہ محسوس کراتی ہیں کہ یہ ان کا دوسرا گھر ہے، کئی پاکستانی شہری چینی خواتین سے شادی کر کے آباد بھی ہو چکے ہیں۔
تاشکرگان میں ایک اور پاکستانی دکاندار علی محمد نے بتایا کہ سنکیانگ کا خطہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے لیے بہترین اقتصادی مواقع فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی دستکاری، قیمتی پتھر، جڑی بوٹیاں، پھل، خشک میوہ جات اور کئی دوسری پاکستانی اشیا یہاں بہت مشہور ہیں اور سنکیانگ کا دورہ کرنے والے چینی شہری اور بین الاقوامی سیاح ان اشیا کو بین الاقوامی قیمتوں پر خریدتے ہیں۔
گلگلت بلتستان چیمبر آف کامرس کے سابق صدر ناصر حسین راکی نے کہا کہ روزانہ سیکڑوں پاکستانی تجارت اور کاروباری مقاصد کے لیے سرحد پار کرتے ہیں۔
سیاحت کے فروغ کے بھرپور مواقع
چینی حکام کے مطابق جنوری سے ستمبر تک 21 کروڑ سے زائد مقامی اور غیر ملکی سیاح سنکیانگ کا دورہ کرچکے ہیں، سازگار پالیسیوں، بہتر انفرااسٹرکچر اور سرحد پار تبادلے کے فروغ کے باعث اس خطے میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔
اس خطے نے سیاحوں کی بھرپور توجہ حاصل کر لی ہے، اس لیے اب پاکستانی ٹور آپریٹرز بھی حکومت سے خنجراب پاس کو سیاحوں کے لیے کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایڈوینچر ٹورز آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے محمد علی کا کہنا ہے کہ درہ خنجراب سب سے زیادہ پُر رونق سیاحتی مقامات میں سے ایک بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاکھوں چینی سیاح دوسرے ممالک گھومنے پھرنے جاتے ہیں، اگر چینی سیاحوں کو خنجراب پاس کے ذریعے پاکستان آنے کی اجازت دی جائے تو پاکستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔