سائفر کیس: ’صدر کو عدالت میں بیان حلفی دینا چاہیے انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترامیم کی منظوری دی یا نہیں‘
سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سائفر کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو طلب کرے تا کہ وہ یہ واضح کریں کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں ترمیم کی منظوری دی تھی یا نہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شاہ محمود قریشی نے یہ درخواست ہفتے کو اڈیالہ جیل میں ریاستی راز افشا کرنے کے الزام میں ان کے اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف درج سائفر کیس کی سماعت کے دوران کی۔
جیل کے احاطے میں ہونے والی سماعت کو میڈیا اور عوام کے لیے کھلا ہونا چاہیے تھا لیکن اس میں میڈیا کی رسائی محدود تھی، صحافیوں کو سماعت کے لیے جیل میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
جیل میں قید عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر 23 اکتوبر کو اس مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی، دونوں نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔
عمران خان کے خلاف الزامات کا تعلق امریکا میں پاکستان کے سفیر کی طرف سے گزشتہ سال اسلام آباد کو بھیجی گئی خفیہ کیبل سے ہے جسے عمران خان پر عوام میں عام کرنے کا الزام ہے۔
مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہو رہی تھی، چار گواہ اپنے بیانات قلمبند کرا چکے تھے، پانچویں گواہ پر جرح جاری تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے جیل ٹرائل کے حکومتی نوٹی فکیشن کو ’غلط‘ قرار دیتے ہوئے پوری عدالتی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
فیصلے کے نتیجے میں خصوصی عدالت نے از سر نو مقدمے کی سماعت شروع کی، رواں ہفتے کے شروع میں خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلہ دیا تھا کہ مقدمے کی کارروائی اڈیالہ جیل میں جاری رہے گی لیکن سماعت کھلی عدالت میں ہوگی۔
خصوصی عدالت کے حکم کے مطابق کارروائی میں شرکت کے خواہشمند افراد کو ایسا کرنے سے نہیں روکا جانا تھا اور صحافیوں کو بھی مقدمے کی کارروائی کا مشاہدہ کرنے کی اجازت تھی، جج نے جمعہ کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکلا کو بھی اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی۔
تاہم ہفتے کو جیل حکام نے میڈیا کے لوگوں کو جیل میں داخل ہونے سے روک دیا جب سماعت شروع ہوئی تو بہت سے مقامی اور عالمی صحافی عدالت کے باہر موجود تھے۔
سماعت ختم ہونے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ مختلف ٹی وی چینلز کے تین رپورٹرز کو سماعت دیکھنے کی اجازت دی گئی لیکن وہ بھی اس وقت جب کہ سماعت ختم ہوگئی اور پراسیکیوٹرز کمرہ عدالت سے باہر نکل چکے تھے۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جب میڈیا کے لوگ جیل کے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو عمران خان اور شاہ محمود قریشی اپنے اہل خانہ اور وکلا سے بات چیت کر رہے تھے۔
جب عمران خان نے میڈیا سے بات کرنا شروع کی تو سیکیورٹی اہلکاروں نے انہیں ایسا نہ کرنے کا کہا۔
مقدمے کی سماعت ’میرٹ پر‘ کی جائے گی
ڈان ڈاٹ کام کی خبر کے مطابق سماعت کے دوران شاہ محمود قریشی نے عدالت سے پوچھا کہ کیا ان کا ٹرائل آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت کیا جا رہا ہے یا رواں برس ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے تحت کیا جا رہا ہے۔
کیس کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ صدر عارف علوی نے کہا تھا کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کے بل کی منظوری نہیں دی۔
شاہ محمود قریشی نے عدالت سے صدر مملکت کو طلب کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں عدالت میں بیان حلفی دینا چاہیے کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دی تھی یا نہیں۔
اس کے بعد سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ معروف وکلا عمران خان کے کیس کی وکالت کے لیے تیار ہیں، شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ ان کا اعتراض حل ہو گیا ہے کیونکہ میڈیا اور عوام موجود ہیں۔
جج نے شاہ محمود قریشی سے کہا کہ عارف علوی کی طرف سے ترمیم شدہ قانون کا کوئی سیکشن آپ پر لاگو نہیں ہوگا، آپ کا ٹرائل آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے مطابق ہوگا، ہم میرٹ پر کارروائی کریں گے۔
دونوں پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکلا کے ساتھ ساتھ عمران خان کی اہلیہ کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔