افغان شہریوں کی ملک بدری کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر
ماہرین تعلیم کے ایک گروپ نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے افغان مہاجرین کی ملک بدری کے نگران حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے اور اس فیصلے پر عملدرآمد روکنے کی درخواست کی گئی ہے۔
درخواست لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے چھ فیکلٹی اراکین نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی ہے جسے یکم دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا ہے۔
آرٹیکل 184 (3) سپریم کورٹ کو ایسے افراد کے مقدمات سننے کا اختیار دیتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور یہ مسئلہ عوامی اہمیت کا حامل ہے یا عدالت اس پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کرے۔
رواں سال نومبر میں حکومت نے غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کرنے کے لیے ایک ملک گیر مہم شروع کی تھی جن میں اکثریت افغانوں کی ہے، اگرچہ اس فیصلے پر افغانستان سمیت دیگر کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی تھی تاہم نگران حکومت نے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا تھا اور ان کا موقف تھا کہ یہ اقدام کسی خاص نسلی گروہ کے لیے نہیں ہے۔
پاکستان میں رہنے والے 40 لاکھ سے زائد افغانوں میں سے حکومت کے اندازے کے مطابق 17 لاکھ غیر دستاویزی ہیں اور غیرقانونی طور پر رہ رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے کارروائی شروع کیے جانے کے بعد سے اب تک طورخم اور چمن بارڈر کراسنگ سے ہزاروں افغانی وطن واپس جا چکے ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں اسی طرح کی ایک درخواست پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سپریم کورٹ میں دائر کی تھی جس میں افغانوں کی ملک بدری کے خلاف حکم امتناع کی درخواست کی گئی تھی، سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ کل فیصلہ کرے گا کہ درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ میں آج دائر کی گئی تازہ ترین درخواست میں وفاق، چاروں صوبوں، اسلام آباد کے چیف کمشنر، افغان مہاجرین کے چیف کمشنر، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)، امیگریشن اور پاسپورٹ کے ڈائریکٹر جنرل اور افغان مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار، متعلقہ شہریوں کی حیثیت سے پاکستان میں رہنے والے پسماندہ اور بے سہارا افغانوں کے مفاد میں درخواست دائر کرنے پر مجبور ہیں، چاہے وہ پناہ گزین ہوں، پناہ کے متلاشی ہوں، نام نہاد غیر قانونی غیر ملکی ہوں یا افغان نژاد پاکستانی شہری ہوں۔
انہوں نے موقف اپنایا کہ یہ درخواست وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور دیگر سرکاری حکام کی جانب سے پاکستان کے نام پر کی جانے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور آئین اور بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کی وجہ سے ضروری ہے۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ پاکستان گزشتہ 40 برسوں سے تقریباً 50 لاکھ افغان مہاجرین کی انتہائی سخاوت سے میزبانی کر رہا ہے اور افغانستان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے وہاں مہاجرین کی واپسی ان کے حقیقی خطرے کا باعث ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ریاستوں اور سرحدی علاقوں کی وزارت کے مطابق پاکستان میں 13 لاکھ رجسٹرڈ افغان، 8 لاکھ نئے رجسٹرڈ افغان اور 7 لاکھ غیر دستاویزی افغان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قبضے کے بعد اگست 2021 سے اب تک غیر دستاویزی طور پر 6 لاکھ نئے افغان پاکستان آئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان میں سے 3 لاکھ نے پناہ گزینوں کے طور پر رجسٹر ہونے کے لیے افغان مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر سے رجوع کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ افغانوں نے دستاویزات حاصل نہیں کیں کیونکہ اس سے قبل ایسی کوئی قانونی ضرورت نہیں تھی اور رجسٹریشن کارڈ کا ثبوت 2006 میں متعارف کرایا گیا تھا، تاہم کارڈ کی عارضی مدت کی وجہ سے وقتاً فوقتاً اس میں توسیع کرانی پڑتی تھی۔
درخواست میں کہا گیا کہ افغان مہاجرین کی موجودہ صورتحال پاکستان میں پناہ گزینوں کے قانون کی کمی کی وجہ سے ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ افغانوں کو بے دخل کرنے کے نگران حکومت کے فیصلے کا کوئی رسمی تحریری خط موجود نہیں ہے اور ایسا لگتا نہیں ہے کہ کسی قانونی اختیار جیسے کہ فارنرز ایکٹ 1946 یا کسی دوسرے قانون کے تحت اسے منظور کیا گیا ہو۔
درخواست میں روشنی ڈالی گئی کہ بے دخلی کے عمل کے دوران سرحدوں پر افغان شہریوں سے 50 ہزار روپے لیے گئے جبکہ ان میں سے بہت سے پاکستان میں اپنے گھر، جائیدادیں اور کاروبار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے تمام افغان قوموں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں ملک بدر کر رہے ہیں اور تصدیق شدہ پناہ گزین کی حیثیت کے حامل غیر دستاویزی افغانوں کو بھی دسمبر 2023 میں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سے غیر قانونی فیصلہ کیا گیا ہے اور آخری تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے، اس وقت سے افغانوں کو جبری بے دخلی، ایذا رسانی، بھتہ خوری، جسمانی زیادتی، نسلی امتیاز، خاندان کے افراد سے الگ کرنے کے ساتھ ساتھ غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ ان کے ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کی ضمانت آئین اور بین الاقوامی قانون دیتا ہے۔
مزید برآں، درخواست میں کہا گیا کہ نگران حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی، اس لیے یہ عمل الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 کی خلاف ورزی کی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ حکومت کا افغانوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے اور فارنرز ایکٹ کے سیکشن 3، 4، 9 اور 14 (2) کو آئین کے خلاف قرار دیا جانا چاہیے۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان بچوں کو پاکستانی شہریت کا حق ملنا چاہیے اور حکومت افغانوں کو پاکستان میں ان کے گھروں میں واپسی کی سہولت فراہم کرکے اب تک ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ایک کمیشن بھی بنایا جائے جو اس عمل کی نگرانی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس عمل کو منصفانہ طریقے سے انجام دیا جائے گا۔