• KHI: Asr 4:08pm Maghrib 5:44pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:02pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • KHI: Asr 4:08pm Maghrib 5:44pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:02pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm

مارشل لا کو راستہ دینے والے فیصلے ختم، ایسے ججوں کا احتساب ہونا چاہیے، جسٹس اطہرمن اللہ

شائع November 28, 2023
پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی—فائل/فوٹو: اے پی
پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی—فائل/فوٹو: اے پی

سپریم کورٹ میں پرویز مشرف سنگین غداری کیس کی سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ مارشل لا کو راستہ دینے والے فیصلے ختم اور ایسے فیصلے دینے والے ججوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 4 رکنی لارجر بینچ نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کی سماعت کی تو سینئر قانون دان حامد خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میرے دلائل گزشتہ سماعت پر مکمل ہو چکے تھے، آج اپنی تحریری معروضات پر جواب جمع کروا رہا ہوں۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیرمین نے بھی حامد خان کے دلائل اپنالیے اور کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ خصوصی عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کی تاریخ کیا ہے۔

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے جواب دیا کہ خصوصی عدالت نے 17 دسمبر 2019 کو پرویز مشرف کا فیصلہ سنایا تھا، چیف جسٹس نے پوچھا کیا لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں خصوصی عدالت کے فیصلے کا ذکر کیا، کیا کہیں ذکر ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، ایسا نہیں ہے تو پھر خصوصی عدالت کا فیصلہ تو آن فیلڈ ہی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے جب فیصلہ دیا تو کیا خصوصی عدالت فیصلہ سنا چکی تھی، ہائی کورٹ نے جب خصوصی عدالت کے فیصلے پر کچھ نہیں کہا تو اکیڈمک مشق کی کیا ضرورت تھی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پاکستان بار کونسل کے نمائندے کی تیاری نہ ہونے پر ناگواری کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ سے ہمیں معاونت نہیں مل رہی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے جب فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دی تو اگلی تاریخ کیسے دی، فل کورٹ تشکیل دینا نہ دینا تو پھر چیف جسٹس کا اختیار تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ آجانے کے بعد تو لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست غیر مؤثر ہو چکی ہے، فیصلے کے بعد ہائی کورٹ میں درخواست ترمیم کے بعد کی چل رہی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ خصوصی عدالت کے فیصلے کو نظرانداز کر کے صرف عدالت کی حیثیت پر فیصلہ نہیں دے سکتی تھی، خصوصی عدالت ایک ریگولیٹر عدالت تھی ہی نہیں، وہ تو ایک فیصلے کے لیے تھی۔

جستس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف بھی سمجھتے تھے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار ہے، پرویز مشرف نے اسی لیے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر سے سوال کیا کہ آپ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو جانتے ہیں یا نہیں، وکیل نے کہا کہ مجھے اس سے متعلق ہدایات نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے دوبارہ کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ تو آج بھی برقرار ہے، لاہور ہائی کورٹ کے حکم میں خصوصی عدالت کا فیصلہ ختم کرنے کا نہیں کہا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم کرنے کی تو استدعا ہی نہیں تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی سماعت کے دوران خصوصی عدالت کا فیصلہ آچکا تھا، سارے فیصلے میں خصوصی عدالت کے فیصلے کا ذکر نہیں ہے۔

وکیل نے کہا کہ اسی وجہ سے پرویز مشرف نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے ایک روز کا نوٹس دیا، کیا ہائی کورٹ میں ایک روز کا نوٹس دیا جاتا ہے، فل کورٹ کی تشکیل کے لیے معاملہ بھجواتے ہوئے تاریخ کیسے دی جا سکتی ہے، ممکن ہے چیف جسٹس فل کورٹ سے متفق ہوں یا نہ ہوں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد درخواست میں ترمیم ہونی چاہیے تھی، خصوصی عدالت صرف اسی کیس کے لیےبنائی گئی تھی جو فیصلہ سناتے ہی ختم ہو گئی۔

پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے متفق تھے، جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ میرا مؤقف ہے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ فیصلے کو تسلیم کرتی تو پھر یہ اپیل نہ کرتے، پرویز مشرف کے وکیل آج بھی اپیل پر کھڑے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت نے اعتراض کیا تھا یا سیم پیج پر تھی، خصوصی عدالت کے فیصلے کے بارے میں ہائی کورٹ کو بتانا تو تھا، اگر آئین غصب ہو جائے تو پھر عدالت 1956 تک بھی جا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ ہدایات کی بات نہ کریں آپ خود ایک قانونی ماہر کی حیثیت سے بتائیں، کیا لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو فیصلہ مانتے ہیں، جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میری نظر میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ، فیصلہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل کے جواب پر انہیں کہا کہ ’تھینک یو‘ اور کہا کہ آپ نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیے جو راستہ چنا تھا ہم اس سے متفق ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کا اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ کیا آپ بھی لاہور ہائی کورٹ میں سیم پیج پر تھے، کیا وفاق نے بھی لاہور ہائی کورٹ کو نہیں بتایا کہ اب خصوصی عدالت فیصلہ سنا چکی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ کیا آپ نے لاہور ہائی کورٹ سے کہا نہیں کہ آپ آگے نہیں چل سکتے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سوال کا واضح جواب نہ دے سکے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کنفیوز لگ رہے ہیں انہیں شاید وہ سیم پیج مل نہیں رہا ہے۔

12 اکتوبر کے اقدام کو اسی عدالت نے راستہ دیا، جسٹس اطہرمن اللہ

اس کے بعد سندھ ہائی کورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی نے ویڈیو لنک پر دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ پاکستان بار کے دلائل اپنانا چاہتے ہیں۔

رشید اے رضوی کے دلائل پر جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ رشید رضوی صاحب ماضی میں کب تک جائیں گے،کہ کیا کیا ہوا، مجھے چیف جسٹس کا احترام ہے مگر بالکل جائیں پھر اسی مشرف نے 12 اکتوبر کو بھی آئین توڑا اور اسمبلیاں توڑیں۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 12 اکتوبر کے اقدام کو اسی عدالت نے راستہ دیا، مشرف مارشل لا کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے، کارروائی صرف 3 نومبر کے اقدام پر کیوں کی گئی، 3 نومبر کو صرف ججوں پر حملہ ہونے پر کارروائی ہو گی تو شفاف ٹرائل پر سوال اٹھے گا۔

وکیل کو مخاطب کرکے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا ججوں پر حملہ اسمبلیاں توڑنے اور آئین معطل کرنے سے زیادہ سنگین معاملہ تھا، رشید اے رضوی صاحب ہمیں سچ بولنا چاہیے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگر کسی فیصلے کوختم ہونا ہے تو اسے ہونا چاہیے، جس نے مارشل لا کو راستہ دیا، ان ججوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو ماضی میں ہو چکا اسے میں ختم نہیں کرسکتا، کیا جنوبی افریقہ میں سب کو سزا ہی دی گئی تھی، قوم بننا ہے تو ماضی کو دیکھ کر مستقبل کو ٹھیک کرنا ہے، سزا اور جزا اوپر بھی جائے گی، کئی بار قتل کے مجرمان بھی بچ نکلتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل آکر بتائیں آئین توڑنے والے ججوں کی تصویریں ہی یہاں کیوں لگی ہیں، جج ہی یہاں بیٹھ کر کیوں پوائنٹ آوٹ کریں، میڈیا بھی ذمہ دار ہے ان کا بھی احتساب ہوناچاہیے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ بتائیں کتنے صحافی مارشل لا کے حامی اور کتنے خلاف تھے، جس پر رشید اے رضوی نے کہا کہ میں ججوں کے کنڈکٹ کا معاملہ بھی عدالت کے نوٹس میں لے آیا ہوں، پرویز مشرف کے اقدام کو جواز فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

اس کے ساتھ سندھ ہائی کورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی کے دلائل مکمل ہو گئے۔

فیصلے کے وقت پی ٹی آئی کی حکومت تھی، وکیل حامد خان

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف توفیق آصف کی اپیل پر وکیل حامد خان نے دلائل شروع کیے تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا عدالتی معاون نے بھی لاہور ہائی کورٹ میں جاری کارروائی کی حمایت کی، وفاق نے بھی کارروائی پر اعتراض نہیں کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اس وقت حکومت کس کی تھی، وکیل نے جواب دیا کہ اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب اب ہم آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ اپنے گھر سے ہوئی غلط بات کو غلط کہنے کھڑے ہیں، حامد خان صاحب اسی لیے آپ کا قد بڑا ہے۔

حامد خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں سب سیم پیج پر تھے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ وہ پیج کیا تھا، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف جب کارروائی شروع ہوئی تو اس وقت کی حکومت بھی کارروائی نہیں چاہتی تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اس وقت کی حکومت کو بھی اس عدالت نے کارروائی کی طرف مائل کیا، سنگین غداری کیس جب شروع ہوا تو اس وقت کس کی حکومت تھی، حامد خان نے جواب دیا کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس کے باوجود انہوں نے 12 اکتوبر کو کارروائی کا حصہ نہیں بنایا، چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ کی باتوں سے یہی لگتا ہے کہ ایک شخص ہی حکومت چلارہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا سب سول حکومتیں ایک ہی پیج پر تھیں، جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو برملا الفاظ میں پرویز مشرف کو جواز دینے والے فیصلے کی مذمت کیوں نہیں کرنی چاہیے۔

پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں سزا سنائی گئی، وکیل سلمان صفدر

حامد خان کے دلائل مکمل ہوئے تو پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے کہا کہ میں صرف سزا کے خلاف اپیل پر فوکس کروں گا۔

چیف جسٹس نے وکیل سلمان صفدر سے کہا کہ ہم آپ کو آئندہ سماعت پر سنیں گے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں ٹرائل چلا کر سزا سنائی گئی، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کا پرویز مشرف کے ورثا سے رابطہ ہوا، وکیل نے کہا کہ میں نے کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔

پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ پرویز مشرف کے اہل خانہ کو وقت دیا جائے، انہوں نے 4 سال یہ اپیل مقرر ہونے کا انتظار کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر سزا برقرار رہتی ہے تو پرویز مشرف کی پنشن اور مراعات پر بھی اثر پڑے گا، اس سوال پر بھی آئندہ سماعت پر معاونت کریں، ہم سزا بھی برقرار رکھیں اور سب کو پینشن اور مراعات بھی ملتی رہیں یہ نہیں ہو گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ آپ کو آئندہ تاریخ کب کی چاہیے، ہم نے وفاق کا مؤقف تو سنا نہیں، وکیل نے جواب دیا کہ سردی کی چھٹیوں کے بعد کی کوئی تاریخ رکھ لیں۔

حکم نامہ

سماعت مکمل ہوتے ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کر دیااور کہا کہ پرویز مشرف کے وکیل نے بتایا کہ انہیں مشرف نے خصوصی عدالت کا فیصلہ چیلنج کرنے کی ہدایت کی تھی، وکیل کے مطابق مشرف نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر انحصار کی ہدایت نہیں کی تھی۔

حکم نامے میں کہا کہ مشرف کے وکیل نے چھٹیوں کے بعد تاریخ مانگی، مشرف کے وکیل اس دوران مرحوم جنرل کی فیملی سے رابطے کی کوشش کریں گیے، مشرف کے وکیل سے عدالتی سوال ہے کہ ملزم کی وفات پر کیا اپیل غیر مؤثر نہیں ہوئی، کیا سزا برقرار رہنے پر پرویز مشرف کی فیملی کو مراعات دینی چاہیئں یا نہیں۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 10 جنوری 2024 تک ملتوی کر دی۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024