عالمی اداروں کا شفافیت کا مطالبہ، پاکستان کی ماحولیاتی فنڈنگ کی درخواست
منصوبوں پر عمل در آمد کرنے میں مشکلات اور کثیرالجہتی اور دو طرفہ قرض دہندگان کی طرف سے مزید شفافیت کے مطالبے کے درمیان پاکستان کے موسمیاتی فنانسنگ اہداف پورا کرنے کے لیے نگران حکومت نے اضافی بین الاقوامی مالیاتی سپورٹ کی درخواست کر دی، بالخصوص ان قرضوں کے لیے جن کا تعلق ’ڈیٹ فار نیچر اینڈ ڈیٹ فار سوشل ڈیولپمنٹ سوئپ‘ سے ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نگران وزیر خزانہ نے یہ اضافی فنانسنگ کی اپیل اقوام متحدہ فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی (یو این ایف سی سی سی) کے تحت دبئی میں 30 نومبر سے 12 دسمبر تک منعقد کردہ اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (کوپ-28) سے قبل کی۔
شمشاد اختر نے عالمی مالیاتی مارکیٹ کی نازک حالت کا حوالہ دیتے ہوئے پہلے ہی روایتی یورو بانڈ کے اجرا کا منصوبہ روک دیا ہے اور متعلقہ بانڈز جیسے ماحولیاتی، معاشرتی اور گورننس کے ذریعے ماحولیاتی فنانس کے حصول کے لیے کوشش کرنےکا اعلان کیا۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 3 ارب ڈالر کے پروگرام کی ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط دوسری قسط میں 70 کروڑ ڈالر ملنے کے امکان کے بعد کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری آنے کے پیش نظر دوسرے کثیر الجہتی اداروں سے بھی اس پر توجہ دی جائے گی۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق اگلی کوپ-28 کانفرنس کے لیے حکومت کی تیاریاں جاری ہیں اور وزیر خزانہ نے کثیر الجہتی ترقیاتی بینک (ایم ڈی بی) سے سرمائے کے حصول کو بہتر کرنے کی کوششوں پر زور دیا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ڈیٹ فار نیچر اینڈ ڈیٹ فار سوشل ڈیولپمنٹ سوئپ‘ کی اپیل کو بھی دہرایا گیا ہے جو موسمیاتی فنانسنگ اہداف کو پورا کرنے کے عزم کی نشانی ہے۔
تاہم منصوبے کی تیاری اور عمل درآمد قرض دہندگان کی جانب سے پہلے سے ہی عہد کیے گئے فنڈز کی وصولی ایک بڑا چیلنج ہے۔
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف دونوں بین الاقوامی فنڈ سے متعلق شفافیت اور احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان میں وہ فنڈز بھی شامل ہیں جن کا تعلق خصوصی پروجیکٹ جیسے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) سے ہے۔
جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ ملاقاتوں کے دوران ورلڈ بینک، یورپی یونین، ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی)، اسلامی ترقیاتی بینک، امریکی امداد برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ)، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی)، جرمنی، جاپان، ورلڈ فوڈ پروگرام ( ڈبلیو ایف پی)، انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچرل ڈپارٹمنٹ (آئی ایف اے ڈی) اور دیگر نے شرکت کی اور حکومت پاکستان کے ساتھ مسلسل تعاون کا وعدہ کیا۔
انہوں نے شفافیت، حکومتی ترجیحات کے ساتھ ہم آہنگی اور امداد کی بروقت تقسیم کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے کامیاب جائزہ پر بھی مبارکباد دی۔
اجلاس میں شریک دیگر ترقیاتی شراکت داروں میں جاپان کی بین الاقوامی تعاون ایجنسی (جے آئی سی اے)، کورین انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (کے او آئی سی اے) اور اقوام متحدہ کا فنڈ برائے اطفال (یونیسیف) بھی شامل تھے۔
اس اجلاس میں منصوبوں میں تاخیر کو تشویش کا باعث قرار دیا گیا، 6.7 ارب ڈالر کے ورلڈ بینک کے فنڈ سے چلنے والے منصوبوں میں سے آدھے سے زیادہ یا مسائل کا شکار یا غیر تسلی بخش پائے گئے، جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں کی صورتحال بھی مختلف نہیں تھی۔
ڈاکٹر شمشاد اختر کو اجلاس کے دوران اور بعد میں اس صورتحال پر عوام کے سامنے تشویش کا اظہار کرنا پڑا، ایک بیان میں منصوبوں میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نگران وزیر خزانہ نے وعدہ کیا کہ وہ ان مسائل کو وزیر اعظم ہاؤس اور صوبائی حکومتوں کی توجہ میں لائیں گی تاکہ وہ منصوبے کی تکمیل میں تیزی لاسکیں۔
انہوں نے ڈونرز سے مہارت اور تکنیکی مدد کی اپیل بھی کی تاکہ پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کے فائدے کے لیے بروقت عمل درآمد کو یقینی بنایا جاسکے، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک کے فنڈز سے چلنے والے منصوبوں کے وفاقی پورٹ فولیو کا جائزہ لیتے ہوئے نگران وزیر خزانہ نے سماجی و اقتصادی ترقی میں ان منصوبوں کے اہم کردار پر بھی زور دیا، جو روزگار کی مارکیٹ تک رسائی کی پیشکش کرتے ہیں اور لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لیے معاشی نقل و حرکت کو فروغ دیتے ہیں۔