سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر یہ الزامات درست ثابت ہو گئے تو ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے۔
یہ آبزرویشن اس وقت سامنے آئی جب عدالت عظمیٰ نے 8 نومبر کو آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔
درخواست گزار نے الزام لگایا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے حکم پر ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
8 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے درخواست گزار سے کہا تھا کہ وہ جنرل حمید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ حلقوں سے رجوع کریں۔
آج جاری کیے گئے تحریری حکم نامے میں عدالت نے کہا کہ الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں اور اگر درست ہیں تو بلاشبہ وفاقی حکومت، مسلح افواج، آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے، اس لیے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
تحریری حکم نامے میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت درج مقدمے کی نوعیت دیگر مقدمات سے مختلف ہے، آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ نے اصل طاقت کا استعمال کیا اور جب بھی اصل طاقت کا استعمال کیا جائے تو اسے احتیاط سے کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کی جانب سے براہ راست مداخلت دوسروں کے حقوق کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔
آرڈر میں درخواست گزار کی طرف سے اٹھائے گئے ان خدشات پر بھی غور کیا گیا کہ وزارت دفاع اس کی شکایت پر غور نہیں کرے گا کیونکہ جواب دہندگان مسلح افواج میں اعلی عہدوں پر فائز تھے۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ تاہم ماہر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ شکایت پر مناسب غور کیا جائے گا اور ہمارے پاس حکومت پاکستان کی جانب سے دیے گئے اس بیان پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اس لیے درخواست گزار کا خدشہ غلط ہے۔
عدالت نے پٹیشن کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ اگر درخواست گزار وزارت دفاع کو کوئی شکایت پیش کرتا ہے تو اس سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔
درخواست
درخواست کے مطابق 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے مبینہ دہشت گردی کے مقدمے کے سلسلے میں ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم کے دفتر اور معیز کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور سونے اور ہیرے کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان چھین لیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ بریت کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے معیز سے ان کے کزن جو فوج میں ایک بریگیڈیئر ہیں، کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کیا۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے درخواست گزار کو بتایا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینے گئے 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا چند چیزیں واپس کردیں گے۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کے لیے ایک نجی ٹی وی نیٹ ورک کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔
درخواست کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق اہلکار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔