بیمار ہوا تو کسی نے حال تک نہ پوچھا، ساحر علی بگا کا شکوہ
معروف گلوکار و موسیقار ساحر علی بگا نے شکوہ کیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب انہیں ایک طبی پیچیدگی لاحق ہوئی تو ان کے ساتھ کام کرنے والے گلوکاروں اور موسیقاروں سمیت ان کے شاگردوں میں سے کسی نے بھی ان کا حال تک نہ پوچھا۔
ساحر علی بگا حال ہی میں کامیڈی شو ’مذاق رات‘ میں شریک ہوئے، جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ پرائمری اسکول میں پڑھتے تھے تب سے انہوں نے موسیقی بنانا شروع کی۔
ان کے مطابق وہ درسی کتابیں پڑھنے کے دوران سبق پر دھن تیار کرتے تھے جب کہ اخبار کی خبروں پر بھی وہ دھن بنایا کرتے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام بڑے سے بڑے فنکاروں کو بھی تربیت اور مشق کی ضرورت ہے اور ایسی ضرورت عمر بھر رہتی ہے لیکن بدقسمتی سے کوئی ایسا نہیں کرتا۔
انہوں نے واضح کیا کہ جب کوئی بھی گلوکار یا موسیقار مشہور بن جاتا ہے، اسے آسائشیں ملنے لگتی ہیں تو وہ محنت کرنا چھوڑ دیتا ہے، وہ گانوں پر مشق کرنا چھوڑ دیتا ہے، ایسے گلوکار سے اگر کوئی گانا گوایا جائے اور دوسرے دن مذکورہ گانے میں کچھ تبدیلی کرکے انہیں پھر سے گلوکاری کرنے کو کہا جائے تو وہ نہیں کر پاتے۔
ساحر علی بگا کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے بہت سارے گلوکاروں اور موسیقاروں کے ساتھ مل کر کام کیا لیکن انہیں کسی کے ساتھ کام کرکے مزہ نہیں آیا، عین ممکن ہے کہ باقی سب کو ان کے ساتھ کام کرکے مزہ آیا ہوگا۔
پسندیدہ گلوکار اور موسیقار سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ انہیں نئے فنکاروں میں سے کوئی بھی پسند نہیں، البتہ ماضی کے گلوکاروں میں سے انہیں محمد رفیع پسند تھے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے بہت سارے شاگرد ایسے ہیں جن پر وہ کافی محنت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ سیکھ نہیں پاتے اور ان کا دل کرتا ہے کہ وہ انہیں اکیڈمی سے نکال کر پھینک دیں لیکن ایسا کر نہیں پاتے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ماضی میں جب وہ کمر کی تکلیف سے گزر رہے تھے، انہیں طبی پیچیدگیاں لاحق تھیں، تب ان کے ساتھ کام کرنے والے کسی فنکار یا شاگرد نے ان کی کیا مدد کی؟
اس پر ساحر علی بگا نے شکوہ کیا کہ بیماری کے وقت ان سے کسی نے حال تک نہ پوچھا۔
انہوں نے کہا کہ ایسے مشکل وقت میں کسی کی ایک فون کال بھی بڑا سہارا بنتی ہے اور احساس ہوتا ہے کہ مصیبت کے وقت کوئی ساتھ کھڑا ہے لیکن کسی نے فون کال تک نہ کی۔
اگرچہ انہوں نے شکوہ کیا کہ بیماری کے وقت کسی نے بھی ان کا حال تک نہ پوچھا لیکن انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا۔