• KHI: Zuhr 12:29pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 3:25pm
  • KHI: Zuhr 12:29pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 3:25pm

فیض آباد دھرنا کیس: فیصلے پر عمل درآمد کیلئے کمیٹی بنادی، حکومت کا سپریم کورٹ میں جواب

شائع October 27, 2023
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 28 ستمبر کو سماعت کی تھی — فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 28 ستمبر کو سماعت کی تھی — فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ تحریک لبیک (ٹی ایل پی) کے اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 2017 میں دیے گئے دھرنے سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ایک ’خصوصی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘ تشکیل دے دی گئی ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت عظمیٰ میں جمع 3 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے 6 فروری 2019 کو دیے گئے فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ تین رکنی کمیٹی انٹرسروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر، وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکریٹریز پر مشتمل ہے۔

وفاقی حکومت نے بتایا کہ کمیٹی کو ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کی روشنی میں انکوائری کرنے اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

ٹی او آرز کے تحت کمیٹی ثبوت جمع کرنے، جائزہ لینے، تمام متعلقہ دستاویزات اور ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے گا، کمیٹی کو متعلقہ گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے، قابل اطلاق قوانین، قواعد اور پالیسیوں کی روشنی میں صورت حال کا جائزہ لینے اور معاملے کو دیکھنے والے تمام افراد کے کردار کی نشان دہی کرنے کی بھی ذمہ داری دی گئی ہے۔

کمیٹی کو تجاویز کے ساتھ جامع رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

حکومت کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ کمیٹی نے ٹی او آرز کے تحت 26 اکتوبر کو اپنا پہلا اجلاس بھی منعقد کر لیا ہے۔

مزید بتایا گیا کہ کمیٹی یکم نومبر تک وزارت دفاع کو ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جمع کرائے گی، اس حوالے سے اگر کمیٹی کو مزید وقت درکار ہوا تو وزارت دفاع سے رجوع کرے گی۔

حکومت نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ مذکورہ استدعا قبول کی جاسکتی ہے اور فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ مکمل ہونے پر درخواست گزار کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔

خیال رہے کہ 28 ستمبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پرنظر ثانی کی 9 درخواستوں پر سماعت کی تھی، درخواست گزاروں نے اس بات پر آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ اپنی فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست واپس لے لیں گے۔

سماعت کے دوران وزارت دفاع نے وفاقی حکومت کی توسط سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، سابق فوجی آمر ضیاالحق کے بیٹے اعجازالحق، انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) اور پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نظر ثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سب لوگ سچ بولنے سے خوف زدہ کیوں ہیں۔

سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواستوں پر سماعت یکم نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کے وکلا کو 27 اکتوبر کر تحریری جواب جمع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے جواب میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ ٹی ایل پی دہشت گردی یا ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے اور ممنوع فنڈنگ بھی حاصل نہیں کی۔

26 ستمبر کو سپریم کورٹ نے 20 دن جاری رہنے والے دھرنے کے حوالے سے کسی بھی فرد کے نئے انکشافات کو تحریری طور پر جمع کروانے کا حکم دیا تھا، جس کے نتیجے میں جڑواں شہر کی سرگرمیاں معطل ہوگئی تھی۔

فیض آباد دھرنا

یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔

27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 19 دسمبر 2024
کارٹون : 18 دسمبر 2024