• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

خصوصی عدالت نے عمران خان کو بیٹوں سے فون پر بات کرنے کی اجازت دے دی

شائع October 18, 2023
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی فیملی کے تحفظات اور ملزم کے آئینی حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا —فائل فوٹو: ڈان نیوز
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی فیملی کے تحفظات اور ملزم کے آئینی حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا —فائل فوٹو: ڈان نیوز

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی بیٹوں سے فون پر بات کرانے کی اجازت دے دی۔

اسلام آباد کی آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سابق وزیر اعظم کی بیٹوں کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کروانے کی درخواست پر سماعت کی، عمران خان کے وکیل شیراز احمد رانجھا عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت جج نے کہا کہ اب تک اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے ایس او پیز نہیں آئے، جیل میں ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے ایس او پیز آجائیں تو دیکھ لیتے ہیں۔

عمران خان کے وکیل شیراز احمد رانجھا نے کہا کہ آج بھی ایس او پیز نہیں آئے، آپ کہیں تو میں عدالت کی معاونت کر دیتا ہوں، چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں ورزش کے لیے سائیکل مہیا کرنا چاہتے ہیں، اگر عدالت اجازت دے تو سائیکل آج ہی مہیا کر دیتا ہوں۔

اس پر جج ابوالحسنات نے ریمارکس دیے کہ سائیکل کے حوالے سے تو میں پہلے ہی جیل حکام کو کہہ چکا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ سائیکل کا غلط استعمال نہ ہو، ایسا نہ ہو کہ سائیکل جیل سپرنٹنڈنٹ چلاتا رہے، جیل مینوئل بھی دیکھنا ہوتا ہے، ہمارے لیے انڈر ٹرائل ملزم کی سیکیورٹی اہم ہے۔

شیراز احمد رانجھا نے کہا کہ اگر خدشات ہیں تو ایک بندہ مقرر کر دیں جس کی نگرانی میں سائیکل استعمال ہو۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کہتے ہیں کھانا گھر سے منگوایا جائے لیکن ذمہ داری کون لےگا؟ اگر کھانا جیل میں تیار ہو تو جیل حکام ذمہ دار ہوتے ہیں، میں سائیکل والے معاملے پر آرڈر کر دیتا ہوں، معاملے کو حل کر دیتے ہیں۔

شیراز احمد رانجھا نے کہا کہ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے عدالت آج آنا ہے، جج ابوالحسنات نے استفسار کیا کہ کیوں آپ چاہتے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی ہمشیرہ کی موجودگی میں ریلیف دوں؟ چلیں علیمہ خان کو پہنچ جانے دیں، میرے لیے قابل احترام ہیں، جب تک علیمہ خان آتی ہیں، تب تک میں چائے پی لیتا ہوں۔

دریں اثنا جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی کی ہمشیرہ کے آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا، مختصر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل شیراز احمد رانجھا اور علیمہ خان جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی عدالت میں پیش ہوئے۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ ایس او پیز آگئے ہیں جن کے مطابق ملزم کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، میں پھر بھی جیل مینوئل کے مطابق ٹیلی فونک گفتگو کے معاملے کو دیکھ لیتا ہوں۔

شیراز احمد رانجھا نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملزم کو اپنی فیملی سے ٹیلی فونک گفتگو کروانے پر پابندی نہیں، پریزنرز رولز کے مطابق 12 گھنٹے اہلیہ، بچوں سے جیل میں ملاقات کروانے کی اجازت ہے، دیگر ملزمان کو ٹیلی فونک گفتگو کروانے کی بالکل اجازت ہے۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے استفسار کیا کہ مجھے جیل مینوئل میں بیرونِ ملک بات کرنے کی اجازت تحریر ہوئی دکھا دیں، شیراز احمد رانجھا نے جواب دیا کہ جیل مینوئل میں اجازت نہیں لیکن وفاقی شرعی عدالت نے اس حوالے سے فیصلہ جاری کیا ہے۔

اس دوران شیراز احمد رانجھا نے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ عدالت میں جمع کروا دیا، انہوں نے کہا کہ ہفتے کو تمام قیدیوں کی ٹیلی فونک گفتگو کروائی جاتی ہے۔

ابوالحسنات ذوالقرنین نے استفسار کیا کہ مجھے بیرون ملک بات کروانے کی اجازت کے حوالے سے بتائیں، شیراز احمد رانجھا نے کہا کہ اٹک سپرنٹنڈنٹ جیل نے غلط بیانی کی، شو کاز نوٹس دینا چاہیے۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کے حق میں کہہ رہا ہوں، میں ٹیلی فونک گفتگو کی اجازت دے دیتا ہوں، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو ہدایت جاری کرتا ہوں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بیٹوں سے بات کرنے کی اجازت دی جائے۔

دریں اثنا عدالت نے اوپن کورٹ میں فیصلہ سناتے ہوئے جیل سپرنٹنڈنٹ کو اپنی نگرانی میں چیئرمین پی ٹی آئی کو اپنے بیٹوں سے ٹیلی فونک گفتگو کروانے کی ہدایت جاری کردی۔

تحریری فیصلہ جاری

بعد ازاں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی بیٹوں سے ٹیلی فونک گفتگو کروانے کی اجازت ملنے کا ایک صفحے پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے مطابق جیل مینوئل میں ملزم کو ٹیلی فونک گفتگو کروانے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ملزم کو بیرون ملک گفتگو کرنے کی اجازت نہیں۔

جج ابوالحسنات نے تحریری فیصلے میں مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی فیملی کے تحفظات اور ملزم کے آئینی حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جیل سپرنٹنڈنٹ کو عمران خان سے ان کے بیٹوں سے بات کروانےکی ہدایت کی جاتی ہے۔

جج اور علیمہ خان کے درمیان دلچسپ مکالمہ

دوران سماعت جج ابوالحسنات ذوالقرنین اور چیئرمین پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان کے درمیان سائیکل کے موضوع پر دلچسپ گفتگو ہوئی۔

علیمہ خان نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتی ہوں، اڈیالہ جیل میں جِم کی سہولت موجود ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے گھر میں سائیکل موجود ہے جو وہ استعمال کرتے ہیں، میرے بھائی نے سائیکل کے سوا اور کچھ نہیں مانگا۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ میں نے فیملی کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو فیور دے دی ہے، ٹینشن نہ لیں۔

علیمہ خان نے کہا کہ ہمارا بھائی اور کچھ نہیں مانگتا، بس ایک سائیکل مانگی ہے، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک مخصوص شخص گھر سے سائیکل خود جیل میں مہیا کردے؟

جج ابوالحسنات نے استفسار کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اہم شخصیت ہیں، اہم زندگی ہے، سائیکل پہنچاتے ہوئے راستے میں کچھ ہوجائے تو کون ذمہ دار ہوگا؟ علیمہ خان نے کہا کہ صاف سی بات ہے! جیل کا کنٹرول آپ کے پاس ہے، سائیکل پر آپ جب حکم جاری کریں گے جیل پہنچا دی جائے گی۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے استفسار کیا کہ میں نے جیل میں جا کر دیوار تڑوا دی، کون جج ایسا کرتا ہے؟ جیل سے دیوار توڑ دی، اب چیئرمین پی ٹی آئی کی چہل قدمی آرام سے جاری ہے۔

علیمہ خان نے ایک بار پھر اسرار کیا کہ جتنی جلدی ہو سائیکل دے دیں، جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو سائیکل کیا موٹر سائیکل بھی دے دیں گے، ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے علیمہ خان سے استفسار کیا کہ کچھ بتائیں کہ آپ نے مانگا ہو اور میں نے نہ دیا ہو؟ علیمہ خان نے جواب دیا کہ عمران خان کو انصاف مل جائے تو بہت شکر ادا کریں گے، عمران خان نے زندگی میں صرف اپنی صحت مانگی ہے، جج صاحب! آپ سے ہی امید ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سائیکل بھی پہنچا دیں گے۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیر اعظم کو سوئمنگ پول کے علاوہ باقی سب کچھ مہیا کردیں گے، سائیکل کا خیال رکھیے گا، کہیں پنکچر نہ ہو، جج کے ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

علیمہ خان یہ کہتے ہوئے عدالت سے روانہ ہوگئیں کہ جج صاحب آرڈر کریں، سائیکل ہم ابھی بھیج رہے ہیں۔

سائفر کیس

واضح رہے کہ سائفر کیس میں گرفتار عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کو 30 اگست تک جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ایف آئی اے نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا۔

ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

کیس کی آخری سماعت 9 اکتوبر کو ہوئی تھی جس کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو چالان کی نقول فراہم کردی گئی تھیں اور عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے 17 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی تھی۔

تاہم گزشتہ روز آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 23 اکتوبر تک ملتوی کردی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024