• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:25pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:25pm

غزہ پر اسرائیلی بمباری جاری، فلسطینی نسل کشی کے خطرے سے دوچار ہیں، ماہرین اقوام متحدہ

شائع October 14, 2023
غزہ میں اشیائے خورو نوش کی قلت شروع ہوگئی ہے—فوٹو: اے ایف پی
غزہ میں اشیائے خورو نوش کی قلت شروع ہوگئی ہے—فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل کےالٹی میٹم کے بعد غزہ سے شہریوں کا انخلا جاری ہے—فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل کےالٹی میٹم کے بعد غزہ سے شہریوں کا انخلا جاری ہے—فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل نے غزہ کے شہریوں کو الٹی میٹم دیا تھا—فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل نے غزہ کے شہریوں کو الٹی میٹم دیا تھا—فوٹو: اے ایف پی
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے فلسطینی شہریوں کی جنوب کی جانب نمایاں نقل و حرکت دیکھی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے فلسطینی شہریوں کی جنوب کی جانب نمایاں نقل و حرکت دیکھی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جانب سے بدترین بمباری کا سلسلہ جاری ہے جہاں بجلی، روٹی اور پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ فلسطینی بدترین نسل کشی کے خطرات سے دو چار ہیں۔

اسرائیل نے گزشتہ ہفتے ہونے والے حماس کے حملے کے بعد سخت کارروائیوں کا اعلان کیا تھا، حماس کے حملے میں 1300 اسرائیلی ہلاک ہوگئے تھے اور 150 سے زائد کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔

بعد ازاں اسرائیل غزہ کا مکمل محاصرہ کرلیا اور بجلی اور پانی کی فراہمی منقطع کردی اور اشیائے خورد کے تمام راستے بند کردیے اور فضائی کارروائیاں شروع کردی تھیں اور ایک ہفتے بعد دکانوں میں اشیائے خورو نوش کی قلت کا سامنا ہے۔

غیرملکی خبرایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق فلسطین کی وزارت صحت نے کہا کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ہفتے شروع کی گئیں کارروائیوں میں اب تک 724 بچوں سمیت 2 ہزار 215 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ جاں بحق افراد میں 458 خواتین بھی شامل ہیں، 8 ہزار 714 افراد زخمی ہوئے، اس سے قبل بیان میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 324 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔


تازہ واقعات

  • فلسطین میں جاں بحق افراد کی تعداد 2 ہزار 200 سے زائد ہوچکی ہے
  • اسرائیل فوج نے کہا کہ غزہ کے شہری انخلا میں دیر نہ کریں
  • عالمی ادارہ صحت نے غزہ کے لیے طبی اشیا مصری سرحد پر بھیج دیں
  • یورپی یونین کے عہدیداروں اور اقوام متحدہ نے کہا کہ نقل مکانی ناممکن ہے، ہلال احمر نے خبردار کیا کہ انسانی بحران جنم لے گا
  • چین کا امریکا سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کا مطالبہ

—فوٹو:اے ایف پی
—فوٹو:اے ایف پی

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق فلسطین میں خصوصی نمائندہ فرانسیسکا البانیز نے کہا کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل قریب پہنچ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کہ ہمارے پاس واپسی کا راستہ نہ رہ جائے، اقوام متحدہ اور اس کے اراکین فریقین میں فوری طور پر جنگ بندی کے لیے ثالثی کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کی ذمہ داری شہریوں کی جرائم سے حفاظت کرے اور ان کی سلامتی یقینی بنائے، اسرائیلی قابض فورسز اور حماس کی جانب سے سرزد ہونے والے جرائم کی بھی فوری طور پر تحقیقات ہونی چاہیے۔

بیان میں کہا گیا کہ 4 لاکھ 23 ہزار سے زائد فسلطینی اسرائیلی کارروائیوں کی وجہ سے بے گھر ہوچکے ہیں، جو اس سے قبل 2008 اب تک 5 بڑی جنگوں کا شکار رہ چکے ہیں اور اس کی وجہ 2007 سے اسرائیل کی جانب سے غیرقانونی طور پر راستے بند کرنا ہے اور اس کی عالمی برادری نے اجتماعی سزا قرار دیتے ہوئے مذمت کی تھی۔

مزید کہا گیا کہ فلسطینیوں کو غزہ میں کوئی بھی مقام محفوظ نہیں ہے جہاں اسرائیل نے مکمل طور پر محاصرہ کر رکھا ہے، مختصر پٹی میں پانی، کھانا، ایندھن، بجلی بھی غیرقانونی طور پر منقطع ہے، صرف رفاہ کی سرحد جزوی طور پر کھلی ہوئی تھی، وہ بھی اسرائیلی حملوں سے نقصان پہنچنے کے بعد بند کردی گئی ہے۔

البانیز نے کہا کہ یہ انتہائی خطرناک بات ہے کہ ہم 1948 کا نکبہ اور 1967 کا نکسہ جیسے مناظر دیکھ رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ خطرناک حالات ہیں، عالمی برادری کو ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ان خطرات سے بچاجائے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومتی عہدیدار کھلے عام ایک اور نکبہ کا پرچار کر رہے ہیں، نکبہ کی اصطلاح 1947 سے 1949 کے دوران پیش آنے والے واقعات کے لیے استعمال ہوتی ہے جب 7 لاکھ 50 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور ملک سے بے دخل کردیا گیا اس کے نتیجے میں اسرائیل وجود میں آیا تھا۔

البانیز نے کہا کہ نکبہ جس کی وجہ سے 1967 میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیل کا قبضہ ہوا تھا، اس کے نتیجے میں 3 لاکھ 50 ہزار فلسطینی بے دخل کردیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل جنگ کی دھند میں پہلے ہی فلسطینیوں کی نسل کشی کرچکا ہے اور اب دوبارہ اپنے دفاع کے حق کے نام پر اسرائیل نسل کشی کے لیے بہانے تراش رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون سے ماورا کوئی بھی فوجی کارروائی کی تو اب عالمی برادری کو اس خلاف ورزی کو بحران دوبارہ پیش سے پہلے روکنا چاہیے۔

البانیز نے کہا کہ وقت قیمتی ہے، فلسطینی اور اسرائیلی دونوں کو امن، برابر حقوق، عزت اور آزادی کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے۔

غزہ میں اشیائے خور ونوش کی قلت

جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں 45 سالہ شہری ایاد ابو مطلق نے بتایا کہ بجلی، کھانا اور کا بحران ہے، ہر جگہ بحران ہی بحران ہے، جہاں ہزاروں شہری اسرائیلی کارروائی کے خوف سے شمال کی طرف جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چاروں مختلف بیکریوں کا چکر لگایا جہاں لمبی قطاریں ہیں اور چیزیں ختم ہوچکی ہیں، صرف خدا ہی یہ مسائل حل کرسکتا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے جمعے کو شمالی علاقے چھوڑنے کا الٹی میٹم دیے جانے کے بعد جنوبی غزہ میں لوگوں کا سیلاب آگیا ہے، جس کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قلت ہونے لگی ہے۔

خان یونس کے شہری نے بتایا کہ میں بنیادی غذائی اشیا، انڈے، چاول اور بچوں کے لیے دودھ تلاش کر رہا تھا لیکن مجھے کوئی چیز نہیں ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ہمارے بچوں کو بھوک سے ستا کر ہمارے خلاف لڑ رہا ہے، وہ بچوں کو یا تو بمباری سے مار رہے ہیں یا بہت جلد بھوک سے مریں گے۔

شمالی غزہ سے ہجرت کرنے والے افراد کا کہنا تھا کہ راستے بہت دشوار گزار ہیں اور نقصانات کی وجہ سے کئی جگہوں پر گزرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

گزشتہ روز شمالی غزہ کے 10 لاکھ سے زیادہ باشندوں کو اسرائیل کی جانب سے 24 گھنٹوں کے اندر جنوبی غزہ جانے کا الٹی میٹم دیا گیا تھا، یہ الٹی میٹم صبح 5 بجے (مقامی وقت کے مطابق 2 بجے) پورا ہوچکا۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کونریکس نے آج علی الصبح ایک ویڈیو بریفنگ میں بتایا کہ ہم نے فلسطینی شہریوں کی جنوب کی جانب نمایاں نقل و حرکت دیکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے ارد گرد اسرائیل کی ریزرو فوج اگلے مرحلے کے آپریشن کے لیے تیار ہو رہی ہے، وہ غزہ کی پٹی کے چاروں طرف، جنوب میں، مرکز میں اور شمال میں موجود ہیں اور وہ خود کو کسی بھی ہدف سے نمٹنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس جنگ کا اختتام یہ ہوگا کہ ہم حماس اور اس کی عسکری صلاحیت کو ختم کر دیں گے اور صورتحال کو بنیادی طور پر اس طرح بدل کر رکھ دیں گے کہ حماس دوبارہ کبھی بھی اسرائیلی شہریوں یا فوجیوں کو نقصان پہنچانے کے قابل نہ رہے۔

حماس کا خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا عزم

دوسری جانب حماس نے خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا عزم کیا اور شمالی غزہ کے رہائشیوں سے کہا کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں۔

اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے گزشتہ روز کہا کہ ٹینکوں سے لیس فوجیوں نے فلسطینی راکٹ حملہ آوروں کو نشانہ بنانے اور یرغمالیوں کی موجودگی کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لیے چھاپے مارے ہیں، یہ حالیہ تنازع شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں اسرائیل کے زمینی دستوں کی پہلی باضابطہ کارروائی ہے۔

وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ کے تقریباً 1900 شہری (جن میں زیادہ تر عام شہری اور 600 سے زائد بچے بھی شامل ہیں) میزائل حملوں میں جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے ابتدائی حملے میں تقریباً 150 اسرائیلی، غیر ملکی اور دوہری قومیت کے حامل افراد کو مغوی بنا کر غزہ لے جایا گیا ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حماس کے الاقصام بریگیڈ نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوراان غزہ پر ہونے والی اسرائیلی بمباری سے اس کے زیر حراست مزید 9 افراد ہلاک ہوگئے ہیں، جس کے بعد حماس کی حراست میں موجود 150 افراد میں سے ہلاک ہونے والی تعداد بڑھ کر 22 ہوگئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہلاک افراد میں 5 اسرائیلی اور 4 دیگر غیرملکی شامل ہیں تاہم مقامات کا تعین نہیں کیا۔

’نسل کشی‘

جرمن وزیر خارجہ اینالینا بئربوک نے گزشتہ روز اسرائیل میں حماس پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ کے رہائشیوں کو ’ڈھال‘ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، جہاں اسرائیل نے پانی، ایندھن اور خوراک کی سپلائی بند کر دی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے حماس کے حملے کے بعد سے لاپتا ہونے والے 14 امریکیوں کے اہل خانہ سے گفتگو کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم انہیں تلاش کرنے کے لیے اپنی صلاحیت کے مطابق ہر ممکن کوشش کرنے والے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ غزہ میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنا ترجیح ہے، فلسطینیوں کی اکثریت کا حماس اور اس کے خوفناک حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس حملے کے نتائج انہیں بھے بھگتنے پڑ رہے ہیں۔

فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہروں کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر کشیدگی بڑھ چکی ہے، دوسری جانب اسرائیل کو لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ علیحدہ تصادم کا خطرہ ہے۔

’رائٹرز‘ سے وابستہ ایک ویڈیو جرنلسٹ مارا جا چکا ہے جبکہ اسرائیل کے قریب جنوبی لبنان میں سرحد پار سے ہونے والی گولہ باری میں اے ایف پی، رائٹرز اور الجزیرہ سے وابستہ 6 دیگر رپورٹرز زخمی ہوچکے ہیں۔

وزارت صحت نے بتایا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں غزہ کی حمایت میں مظاہروں کے دوران اسرائیلی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 16 فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔

فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیہ نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں ’نسل کشی‘ کر رہا ہے۔

دوسری جانب نیتن یاہو کے ترجمان ٹال ہینریچ نے کہا کہ غزہ میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے۔

گزشتہ روز بیروت، عراق، ایران اور اردن میں بھی ہزاروں افراد نے فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے کیے۔

علاوہ ازیں بحرین میں بھی مطاہرے ہوئے جہاں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن آج دورہ کر رہے ہیں جوکہ عرب دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے علاقائی دورے کا حصہ ہے۔

اقوام متحدہ کا ’ناممکن انخلا‘ کے حکم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ

غزہ میں اقوام متحدہ کے حکام نے کہا کہ اسرائیلی فوج (جوکہ سرحد پر جمع ہو رہی ہے) نے کہا ہے کہ شمالی غزہ میں موجود تقریباً 11 لاکھ افراد آئندہ 24 گھنٹوں کے اندر جنوب کی جانب نقل مکانی کریں۔

اسرائیل نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ اس نےکوئی ڈیڈلائن مقرر کی ہے لیکن بعدازاں اعتراف کیا کہ اس میں مزید وقت درکار ہوگا، یرغمالیوں کی موجودگی کے سبب زمینی حملہ پیچیدہ ہوگا۔

اقوام متحدہ نے غزہ کی پٹی میں موجود تقریباً 24 لاکھ آبادی میں سے نصف کی فوری نقل مکانی کو ’ناممکن‘ قرار دیا اور انخلا کے حکم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

جنرل سیکریٹری اقوام متحدہ انتونیو گوتیرس نے ’ایکس‘ پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ 10 لاکھ سے زائد لوگوں کو ایسی جگہ پر منتقل کرنا انتہائی خطرناک اور بعض صورتوں میں ناممکن ہے جہاں خوراک، پانی یا رہائش کا کوئی انتظام نہیں ہے اور غزہ کا پورا علاقہ محاصرے میں ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا کہ ہسپتالوں کو زخمیوں کے علاج میں مشکلات درپیش ہیں اور نظامِ صحت ’بریکنگ پوائنٹ‘ پر پہنچ چکا ہے۔

اردن میں انٹونی بلنکن کے ساتھ ملاقات کے بعد شاہ عبداللہ دوم نے انسانی ہمدردی کی راہداریوں کو فوری طور پر کھولنے کا مطالبہ کیا۔

غزہ کے جنوب میں رفح کراسنگ مصر کے زیرِ انتطام ہے جو اس خدشے کے سبب پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے مخمصے کا شکار ہے کہ اسرائیل کبھی بھی انہیں واپس غزہ آنے کی اجازت نہیں دے گا، جس سے فلسطینیوں کی اپنی ریاست کے لیے امنگیں کمزور پڑ جائیں گی۔

چین کے وزیرخارجہ کا امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سے رابطہ

چین کے وزیرخارجہ وانگ یی نے اسرائیل اور غزہ کے معاملے پر امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن سےفون پر رابط کیا۔

چین کی وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق وانگ یی نے کہا کہ چین جلد از جلد بین الاقوامی امن کانفرنس بلانے کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ خبردار کیا کہ فلسطین-اسرائیل تنازع پھیلتا جا رہا ہے اور قابو سے باہر ہونے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کو بتایا کہ چین ان تمام اقدامات کی مخالفت کرتا ہے جس سے عام شہریوں کو نقصان پہنچتا ہے اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی مذمت کرتا ہے۔

فضائی حملے

غزہ میں گزشتہ روز اسرائیلی فوج نے علاقہ مکینوں کو غزہ کے جنوب میں فوری طور پر انخلا کی تنبیہ کرنے کے لیے فضا سے فلائرز پھینکے۔

فوج نے کہا کہ وہ غزہ شہر میں واضح بطور پر فعال رہے گی اور وسیع پیمانے پر کوششیں کرے گی کہ شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہےکہ حماس کے کارکن غزہ شہر میں گھروں کے نیچے سرنگوں اور بےگناہ شہریوں سے آباد عمارتوں کے اندر چھپے ہوئے ہیں۔

نیتن یاہو نے حماس کو ’کچلنے‘ کا عزم ظاہر کیا ہے اور اسے داعش سے تشبیہ دی ہے۔

جنیوا میں ریڈ کراس نے کہا کہ اسرائیل پر بلاجواز ’خوفناک‘ حملے غزہ کی مستقل تباہی کا جواز نہیں بن سکتے۔

انخلا کا حکم ’جرم‘ ہے، سربراہ عرب لیگ

حماس کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں نے انخلا کی درخواست کو مسترد کر دیا، تاہم اس کے باوجود غزہ کے ہزاروں مکین کندھوں پر سامان کے تھیلے، سوٹ کیس اور بازوؤں میں بچے تھامے پناہ کی تلاش میں آگے بڑھتے نظر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق انخلا کے حکم سے پہلے ہی غزہ میں 4 لاکھ 23 ہزار سے زائد لوگ اپنے گھر بار چھوڑ چکے تھے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے اس انخلا کو تباہی کے مترادف قرار دیا—فوٹو: رائٹرز
فلسطینی صدر محمود عباس نے اس انخلا کو تباہی کے مترادف قرار دیا—فوٹو: رائٹرز

عرب لیگ کے سربراہ احمد ابوالغیط نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے انخلا کا حکم ایک ’جبری منتقلی‘ کا حکم ہے جوکہ ’جرم‘ ہے، فلسطینی صدر محمود عباس نے اس انخلا کو تباہی کے مترادف قرار دیا ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کو نازی دور کے لینن گراڈ محاصرہ کے مترادف قرار دے دیا۔

حزب اللہ کی دھمکی

اسرائیل کو شمال میں ممکنہ طور پر ایک اور محاذ کا بھی سامنا ہے، لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ نے کہا ہے کہ وہ صحیح وقت آنے پر حماس کے ساتھ جنگ میں شامل ہونے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔

اسرائیلی فورسز کی جانب سے آج جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے سرحد عبور کرنے والے ڈرون کے جواب میں جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے دہشت گرد اہداف کو نشانہ بنایا۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے دیگر علاقائی طاقتوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس تنازع کا حصہ نہ بنیں۔

کارٹون

کارٹون : 19 نومبر 2024
کارٹون : 18 نومبر 2024