• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے 17 اکتوبر کی تاریخ مقرر

شائع October 9, 2023
چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت ہوئی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت ہوئی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چالان کی نقول فراہم کردی جس کے بعد 17 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی ان کیمرا سماعت کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر اور اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی عدالت میں پیش ہوئے۔

شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی اور صاحبزادی مہر بانو بھی سماعت سے قبل اڈیالہ جیل پہنچے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وہ سماعت میں شریک ہوئے یا نہیں۔

دوران سماعت عدالت کی جانب سے دونوں ملزمان چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو چالان کی نقول فراہم کی گئیں۔

سماعت کے دوران چیئرمین اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عمران خان نے سلاخوں کے پیچھے سے اپنی قانونی ٹیم سے مختصر ملاقات کی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ ملزمان کو پورے کیس کی کاپیاں فراہم نہیں کر سکتے بلکہ انہیں صرف ضروری کاپیاں دیں گے۔

اس کے بعد مقدمے کے چالان کی نقول عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو فراہم کردی گئیں۔

عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے 17 اکتوبر کی تاریخ مقرر کردی، آئندہ سماعت پر فرد جرم کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری گواہان کو طلبی کے نوٹسز بھی جاری کیے جائیں گے۔

عمران خان نے چالان کی کاپیوں پر دستخط نہیں کیے، وکیل

سماعت کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان نے ان کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک پر شدید احتجاج کیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے روشنی ڈالی کہ نہ تو سابق وزیر اعظم نے کیس کی کاپیاں وصول کیں اور نہ ہی ان پر دستخط کیے۔

انہوں نے کہا کہ قانونی ٹیم چالان کی کاپیاں تقسیم کرنے کے آج کے یک طرفہ فیصلے کو چیلنج کرے گی۔

انہوں نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ صرف جیل مینوئل کے مطابق سہولیات چاہتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ان کے مؤکل جیل میں نقل و حرکت اور ورزش کرنا چاہتے ہیں۔

عمران خان کی صحت کے بارے میں سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیر اعظم توانا تھے لیکن ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی وجہ سے ان کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے سیکیورٹی خدشات کی بنیاد پر جیل ٹرائل پر بھی اعتراض کیا اور سائفر کیس کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کا مطالبہ کیا۔

’چیئرمین پی ٹی آئی کی بیرک کی دیوار توڑ کر چہل قدمی کے لیے جگہ بنادی جائے گی‘

اس دوران خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین کی جیلوں کا دورہ کیا۔

دورے کے بعد جج نے بتایا کہ آج عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے کمروں کا سرپرائز وزٹ کیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ چلنے پھرنے کے لیے جگہ کم ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے کمرے کے باہر دیوار توڑ کر چہل قدمی کے لیے 60 سے 70 فٹ جگہ بنا دی جائے گی۔

ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے کہا کہ جیل کے کمرے کے ساتھ باتھ روم بھی منسلک ہے، صاف ستھرا ماحول ہے، سائفر کیس کی سماعت کے دوران وکلا کی جانب سے کچھ نوک جھونک ہوئی ہے۔

خصوصی عدالت کے جج نے کہا کہ شیر افضل مروت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو چلان کی کاپی پر دستخط کرنے سے روکا، چالان کی نقول لے لی ہیں دستخط کرنے سے ہچکچا رہے ہیں، چالان کی نقول وکلا ساتھ لے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا نے کہا کہ وہ چالان کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں، ہم نے کہا ہے کریں، میں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ ٹرائل کروانا ہے یا نہیں، 17 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی اگر ہائی کورٹ سے کوئی آرڈر نہ آیا، جب چالان کی نقول لے لی ہیں تو دستخط نہ کرنا مناسب نہیں۔

یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا۔

ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی 10 اکتوبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی گزشتہ سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی 26 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024