سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدالت کے اختیارات کیسے کم ہوئے، چیف جسٹس کا وکلا سے سوال
’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے سوال کیا کہ اس ایکٹ سے عدالت عظمیٰ کے اختیارات کیسے کم ہوئے۔**
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کی، جسے براہ راست نشر کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
اہم ریمارکس:
- ہم آج کیس نمٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس
- جب مارشل لا لگتا ہے تو سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، چیف جسٹس
- ترمیم سے ایسے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش کی گئی ہے جو پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں نہیں، وکیل اکرام چوہدری
- اگر چیف جسٹس کے خصوصی حقوق ہیں تو کیا انصاف تک رسائی متاثر نہیں ہوتی؟جسٹس اطہر من اللہ کا استفسار
- آپ پارلیمنٹ پر انگلی اٹھا سکتے ہی لیکن چیف جسٹس کے لامحدود اختیارات پر خاموش ہیں، چیف جسٹس
- سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی
آج سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون سے چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز متاثر ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف چیف جسٹس کے اختیارات محدود نہیں تو کم ضرور کیے جا رہے ہیں، دوسری طرف، وہی اختیارات سینئر ججوں میں تقسیم کیے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قانون مستقبل کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سینئر ججز پر بھی لاگو ہوگا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ میں نے محسوس کیا کہ انہیں سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے لیکن چونکہ اس نے تمام ججوں کو متاثر کیا ہے، اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ فل کورٹ کیس کی سماعت کرے۔
سپریم کورٹ میں پیش وکلا سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ان پر زور دیا کہ وہ ایسے نکات پر بات کریں جو کیس سے متعلق ہوں، انہوں نے کہا کہ ہم آج کیس کو نمٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر وکلا اضافی دلائل دینا چاہیں تو عدالت میں تفصیلی تحریری جواب جمع کرا سکتے ہیں۔
اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے وکیل اکرام چوہدری نے ایکٹ کا ابتدائی پیراگراف پڑھ کر سنایا، انہوں نے استدلال کیا کہ پیراگراف اشارہ کرتا ہے کہ قانون ’مخصوص یا کسی خاص مقصد‘ کے لیے نافذ کیا جا رہا ہے۔
تاہم چیف جسٹس نے مداخلت کرتے ہوئے استفسار کہ کیا قانون میں یہ بات موجود ہے یا یہ بات وکیل کہہ رہے ہیں، ایسے الفاظ کو قانون میں نہ ڈالیں جو اس میں موجود نہیں ہیں، اگر یہ آپ کا تاثر ہے تو یہ بات واضح کریں۔
وکیل نے پھر ایکٹ کا سیکشن 3 پڑھا جس میں کہا گیا ہے کہ ججوں کی ایک کمیٹی عوامی اہمیت کے کیسز کی سماعت بینچ تشکیل دے گی، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ یہ شق قانونی دائرہ کار میں تجاوز ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 183 میں اضافہ پارلیمنٹ میں صرف دو تہائی اکثریت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ایکٹ کے سیکشن 8 نے عدلیہ کی آزادی کے تصور کو ختم کر دیا ہے۔
اکرام چوہدری نے کہا کہ ترمیم سے ایسے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش کی گئی ہے جو پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔
’کیا عدلیہ کی آزادی ہی وہ واحد تصور ہے جس کا ہر حال میں دفاع کیا جانا چاہیے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ قانون ادھوری پارلیمنٹ نے پاس کیا جس کے پاس آئینی ترامیم کا اختیار نہیں تھا۔
ایک موقع پر وکیل نے استدلال کیا کہ ایکٹ کا نفاذ بذات خود آئین کی مکمل تردید کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ جب کوئی قانون ہے بنیادی طور پر غیر آئینی ہے تو یہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہوگا کہ وہ اس پر غور کرے اور اسے غیر آئینی قرار دے۔
ایک موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب آپ عدلیہ کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ کوئی الگ چیز ہے یا یہ عوام اور ان کے حقوق کے لیے ہے؟ کیا عدلیہ کی آزادی ہی وہ واحد تصور ہے جس کا ہر حال میں دفاع کیا جانا چاہیے؟
سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال قانون سازی کی اہلیت کا ہے، شاید سوال یہ نہیں کہ یہ قانون کتنا ’اچھا‘ یا ’برا‘ ہے، سوال قانون سازی کی اہلیت ہے؟ اگر سوال اہلیت کا ہے تو معاملہ ایک سمت میں آگے بڑھتا ہے لیکن اگر جواب یہ ہے کہ قانون سازی کی اہلیت نہیں ہے تو پھر یہ معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔
ایک اور موقع پر چیف جسٹس نے وکیل کی جانب سے طویل وقت لینے پر کہا کہ یہ کیس آج کے بعد نہیں چلے گا۔
سماعت کے دوران اکرام چوہدری نے کہا کہ آرٹیکل 239 حکومت کو دو تہائی اکثریت کے بغیر آئینی ترامیم کرنے سے روکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ اس ایکٹ کو بنانے کی اہل نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے لازمی طور پر آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کے لیے بالکل مختلف طریقہ کار کی ضرورت ہے اور چونکہ اس طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا گیا، اس لیے یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ پارلیمنٹ ایسے قانون کو بنانے کی اہل نہیں تھی جس کا اثر آئین میں ترمیم کا ہو۔
جس پر چوہدری اکرام نے کہا کہ ہاں یہ ہی میرا مؤقف ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان کی رائے میں قانون نے صرف انصاف تک رسائی محفوظ اور یقینی بنائی، کیا پارلیمنٹ انصاف تک رسائی کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی اہل نہیں ہے؟ اپیل کی فراہمی انصاف تک رسائی ہے، چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا بھی انصاف تک رسائی کا ایک عنصر ہے۔
وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ اس قانون سازی نے عدلیہ کی آزادی کو متاثر کیا اور عدالت کے اندرونی امور کو بھی مکمل طور پر ریگولیٹ کیا، پارلیمنٹ نے اپنے مینڈیٹ سے ماورا کام کیا ہے۔
اس کے بعد وکیل حسن عرفان نے اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ سوال قانون سازی کی اہلیت کا ہے، انہوں نے کہا کہ عدلیہ ریاست کے تین ستونوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ بل کو صدر مملکت کی کی منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا جس پر انہوں نے اعتراض اٹھایا، وکیل نے کہا کہ اس سے بل کی منظوری پر پارلیمنٹ کے اندر تنازع کا اشارہ ملتا ہے۔
انہوں نے استدلال کیا کہ قانون سپریم کورٹ کے کام کی جگہ لے رہا ہے اور اسے کمیٹی کو منتقل کر رہا ہے جسے عدالتی فعل نہیں سمجھا جا سکتا اور یہ ایک انتظامی فعل ہو گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ مؤقف اپنا رہے ہیں کہ انفرادی طور پر چیف جسٹس اس طاقت کو استعمال نہیں کر سکتے اور یہ اختیار خصوصی طور پر سپریم کورٹ کو حاصل ہے جس کا مطلب ہے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے تمام ججز؟۔
حسن عرفان نے کہا کہ اختیارات عدالت عظمیٰ کو دیے گئے جس نے سپریم کورٹ رولز بنائے اور پھر سپریم کورٹ نے اپنا مکمل اختیار چیف جسٹس کو دے دیا۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے نوٹ کیا کہ آرٹیکل 191 نے سپریم کورٹ کو ایسے قوانین بنانے کا اختیار دیا جو انتظامی نوعیت کے ہوں، بینچوں کی تشکیل اور مقدمات کا تعین انتظامی اختیار ہے۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ تو قانون کیا کرتا ہے، یہ چیف جسٹس سے اختیار لیتا ہے اور اسے مزید دو ججوں میں تقسیم کرتا ہے، انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے عدالت اپنے اختیارات تفویض کر سکتی ہے۔
’اگر چیف جسٹس کے خصوصی حقوق ہیں تو کیا انصاف تک رسائی متاثر نہیں ہوتی؟‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس طاقت کا استعمال آرٹیکل 191 کے تحت کیا گیا ہے جو آئینی مینڈیٹ ہے، لہٰذا جہاں آئینی مینڈیٹ سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے وہاں ان قوانین کے ساتھ ایک خاص تقدس وابستہ ہوتا ہے، آرٹیکل 191 کہتا ہے کہ آئین اور قانون کے تابع سپریم کورٹ عدالتی امور اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے رولز بنا سکتی ہے
اس کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا، جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو حسن عرفان نے اپنے دلائل جاری رکھے اور عدالت پر زور دیا کہ وہ آرٹیکل 184(3) کے حقیقی مقصد پر نظرثانی کرے، انہوں نے مؤقف اپنایا کیا کہ آرٹیکل میں یہ نہیں کہا گیا کہ اپیل دائر کرنے کے لیے آئینی حق کی خلاف ورزی کی جانی چاہیے، اس کے بعد انہوں نے آرٹیکل پڑھا۔
جب ان سے استفسار کیا گیا کہ درخواست گزار کس بنیادی حق کا نفاذ چاہتا ہے تو وکیل نے جواب دیا کہ یہ انصاف تک رسائی کا حق ہے۔
یہاں جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ وکیل بنیادی حقوق کے بجائے عوامی اہمیت کا حوالہ دے رہے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے پھر استفسار کیا کہ اگر چیف جسٹس کے خصوصی حقوق ہیں تو کیا انصاف تک رسائی متاثر نہیں ہوتی؟
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ یہ چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ وہ سماعت کے لیے بینچ مقرر کریں یا نہ کریں لیکن وہ یہ فیصلہ نہیں کریں گے کہ اس درخواست پر سماعت ہونی چاہیے یا نہیں جب کہ اس کا فیصلہ یہ کمیٹی کرنے والی ہے۔
یہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حسن عرفان سے نئے قانون کی ان کی تشریح کے بارے میں استفسار کیا، اس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جب وکیل قانون کی بنیاد میں جا رہے ہیں تو انہیں پہلے جواب دینے کی ضرورت ہے کہ اس کی منظوری سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ فل کورٹ سماعت کے دوران درخواست گزاروں اور حکومت کی مختلف خیالات نے ثابت کیا کہ یہ درخواست قابل استقلال ہے، اس لیے اس پہلو پر دلائل کی ضرورت نہیں۔
جب حسن عرفان نے نوٹ کیا کہ آئین سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ دونوں کے لیے ایک ہی ہے، انہوں نے کہا کہ تمام عہدوں کے حلف میں آئین کا تحفظ، حفاظت اور دفاع کے الفاظ مشترک ہیں، اس کے بعد وکیل نے ججوں کا حلف بلند آواز میں پڑھ کر سنایا۔
جب حسن عرفان نے کہا کہ آئین پر عمل کرنا پارلیمنٹ کا بھی فرض ہے جس پر چیف جسٹس عیسیٰ نے زور دے کر استفسار کیا کہ کیا اس پر کوئی دو رائے ہو سکتی ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکیل نے ایک موضوع کا ذکر کیا لیکن پھر اس پر دلائل دیے بغیر دوسرے پر چلے گئے، میں نے ابھی تک اپنا قلم استعمال نہیں کیا، میں آپ کے دلائل سمجھوں گا تو کچھ لکھوں گا۔’
جسٹس مظاہر علی نقوی کی جانب سے پوچھا گیا کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس قانون بنانے کا اختیار ہے یا نہیں تو حسن عرفان نے نفی میں جواب دیا، اس سوال پر کہ وکیل کا خیال ہے کہ کسی معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہونا چاہیے اور اس پر اپیل کی اجازت نہیں ہونی چاہیے حسن عرفان نے جواب دیا کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے۔
چیف جسٹس عیسیٰ نے روشنی ڈالی کہ وکلا اور سول سوسائٹی نے ماضی میں آرٹیکل 184(3) کے زیادہ استعمال پر اعتراض کیا تھا۔
’کیا اگلے مارشل لا کا دروازہ کھول دیں‘
وکیل نے استدلال کیا کہ جب بھی نیا چیف جسٹس آئے گا، فیصلوں اور بینچوں کے حوالے سے بے یقینی ہوگی، اس پر چیف جسٹس عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اگلے مارشل لا کا دروازہ کھول دیں؟
سماعت کے دوران چیف جسٹس عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ قانون کا تعلق لوگوں کے فائدے سے ہے یا ان کے نقصان سے ہے نہ کہ چیف جسٹس کے فائدے سے ہے۔
جسٹس منیب اختر نے نوٹ کیا کہ سپریم کورٹ کو اپنے ماضی کے فیصلوں کو درست کرنے کے لیے اپیل کے حق کی ضرورت نہیں ہے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا قانون کا سیکشن 3 آرٹیکل 184(3) سے براہ راست متصادم ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے پھر وکیل سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے، اس پر حسن عرفان نے نفی میں جواب دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک آپ تسلیم نہیں کرتے، اصلاح نہیں ہو سکتی، انہوں نے نوٹ کیا کہ کسی ایک بینچ کے فیصلے کو ترجیح دینا آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب مارشل لا گلے تو سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں اور پھر یہاں اس کمرے میں کتنی تصاویر لگی ہیں جو پھر وہ حلف بھی بھول جاتے ہیں، پھر آپ لوگ بھی بھول جاتے ہیں، سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے، مگر جب پارلیمان کچھ کرے تو اس میں میں میخ نکالتے ہیں، وہاں بھی ذرا سر اٹھا لیے کریں نا، آپ وہاں بھی پٹیشن لے کر آیا کریں نا۔
اس کے بعد کئی ججز نے وکیل سے کہا کہ وہ قانون میں موجود ’سبجیکٹ ٹو کنسٹیٹیوشن اینڈ لا‘ الفاظ کے معنی کی وضاحت کرنے کا کہا جو سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے اور کیا اس سے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے حسن عرفان سے کہا کہ دنیا بھر کے کسی دائرہ اختیار سے کوئی مثال دیں جو کسی غیر منتخب عدالت کے بنائے گئے قوانین کو مجاز فورم کی جانب سے کی گئی بنیادی قانون سازی پر فوقیت دیتا ہو۔
اس پر وکیل نے جواب دیا کہ بنائے گئے قوانین آئین کے تحت ہونے چاہئیں۔
جسٹس جمال خال مندوخیل نے وکیل سے پوچھا کہ کیا آئین نے پارلیمنٹ پر کوئی ایسا قانون بنانے پر پابندی عائد کی ہے جو سپریم کورٹ رولز سے متصادم ہو جس پر حسن عرفان نے جواب دیا کہ اگر پابندی نہیں ہے تو اجازت بھی نہیں ہے۔’
اس کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکیل اپنے مؤقف کے حق میں دلائل دینے کے بجائے صرف ہاں یا نہ میں جواب دے رہے ہیں، انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ ایکٹ نہ صرف سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسجرز کو ریگولیٹ کر رہا ہے جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے بلکہ اپیل کا ایک مناسب حق بھی دے رہا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل سے پوچھا کہ کیا نئی اپیل کا حق دینے کا مطلب دائرہ اختیار دینا یا اس کو بڑھانا“ ہے؟ اس پر حسن عرفان نے جواب دیا کہ یہ دائرہ اختیار دے رہا ہے۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکیل سوالات کے مناسب جوابات نہیں دے رہے، انہیں یاد دلایا کہ انہوں نے بہت زیادہ وقت لے لیا ہے۔
قواعد بنانا سپریم کورٹ کا اختیار ہے، وکیل پی ٹی آئی
پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل عزیر کرامت بھنڈاری نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس کچھ شرائط کے ساتھ درخواست گزاروں کی وکالت کرنے کی ہدایات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ جہاں تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز کا تعلق ہے پارلیمنٹ بذات خود کوئی قانون نہیں بنا سکتی، یہ ہو سکتا ہے لیکن اس اختیار کو آئین کے اندر مختلف ایکسپریس اور ساختی حدود سے محدود کر دیا گیا ہے۔
عزیز کرامت بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اپنے قانون سازی کے اختیارات آرٹیکل 142 اور آئین میں موجود دفعات سے حاصل کیے ہیں، انہوں نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا آرٹیکل 191 بذات خود قانون سازی کی طاقت کا ذریعہ ہے؟
’ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کو سوائے وفاقی قانون سازی کی فہرست میں درج اشیا کے قانون سازی کا اختیار نہیں ہے ؟ کیا آپ یہی کہہ رہے ہیں؟’
وکیل نے جواب دیا کہ جی، انہوں نے مزید کہا کہ اس میں وہ چیز بھی شامل ہے جو آئین کے باڈی میں درج ہے۔
ایک مثال دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اس دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر تو پارلیمنٹ آرٹیفیشل انٹیلی جنس، بیرونی خلا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکتی کیونکہ ان کا ایف ایل ایل یا آئین میں ذکر نہیں ہے۔
سماعت کے دوران عزیز کرامت بھنڈاری نے کہا کہ قواعد سازی کی طاقت سپریم کورٹ کی اسٹینڈ آلون اور خود مختار طاقت ہے، انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اس حوالے سے قانون سازی کر سکتی ہے لیکن اس کی ’حدود‘ ہیں۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ جب آرٹیکل 191 میں ’سبجیکٹ ٹو لا‘ کہا گیا کہ اس حوالے سے معلوم کیا جائے اس پس منظر میں کیا قانون بنایا جاسکتا ہے تو آئین کی دوسری شقوں کا بھی جائزہ لینا پڑتا ہے۔
وکیل نے کہا کہ انٹری 55 میں سپریم کورٹ کی حدود اور اختیارات کا اسکوپ وضع کیا گیا ہے کہ صرف اس صورت میں حدود میں توسیع ہوسکتی ہے جب آئین کے تحت اختیارات کا بتایا گیا ہو۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں حقائق پر آنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آپ کہہ رہے ہیں اس سے اختیارات ختم ہوں گے، پہلا اختیار پارلیمنٹ نے آئین کے ذریعے دیا ہے۔
انہوں نے پوچھا کہ اختیارات وسیع ہوتے ہیں اگر یہ اختیار دیا جائے، مثال کے طور پر سینیٹ آف پاکستان ہے، تو اس حوالے سے ہوسکتا ہے جواب مثبت ہو، بالکل آپ درست ہیں لیکن یہ اختیار عمارت سے باہر نہیں گیا، یہ عمارت کے دائرے میں ہی رہا، لہٰذا آپ کہہ رہے ہیں کہ 184 کے تحت حاصل اختیار زیادہ افراد کے لیے تباہ کن ہوگا۔
’چیف جسٹس کے اختیارات کم اور سپریم کورٹ کے بڑھا دیے گئے ہیں‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کم کر دیے گئے ہیں، عدالت عظمیٰ کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا ہے تو آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ اختیارات کم کر دیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب عدالتیں قانون بنارہی ہوں تو یہ غلط ہے، ان کا اختیار قانون کی وضاحت کرنا ہے، اگر ایک قانون کوئی آئینی شق کی خلاف ورزی کر رہا ہو تو وہ ختم ہوتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ عدالتوں کے اختیارات لے لیے گئے ہیں۔
مختصر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل سے سوال کیا کہ اگر پارلیمنٹ ڈیٹا پروٹیکشن کے حوالے سے کوئی قانونی بناتی ہے جو آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کے بنائے گئے رولز کے برخلاف ہوتو کیا رولز رہیں گے یا ایکٹ رہے گا۔
وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ ان حالات میں رولز برقرار رہیں گے کیونکہ ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون بنانا جو سپریم کورٹ کا پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی فراہم کرتا ہے، پارلیمنٹ بھی انٹری 55 کے تحت جائے گا، لہٰذاانٹری 55 کے حالات کو مساوی ہونا چاہیے جو اس کیس میں ممکن نہیں ہے کیونکہ اس حوالے سے آئین کے ڈھانچے میں کچھ نہیں ہے، جو پارلیمنٹ کو یہ قانون بنانے کی اجازت دے اور حدود میں توسیع کا اختیار دیتا ہو۔
انہوں نے کہا کہ جب آئین میں قانونی اختیارات وضع کردیے گئے ہوتے تو پھر پارلیمنٹ کے لیے ممکن تھا کہ وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے لیے رولز فراہم کرتے لیکن اس کے علاوہ نہیں۔
وکیل نے کہا کہ قانون واضح کرتا ہے کہ رولز برقرار رہیں گے، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین پر سزا ہوئی اور ٹرائل اسی معزز عدالت نے کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہاں ایسا لگتا ہے کہ جس پروسیجر کی پیروی کی گئی ہے اس سے توہین عدالت آرڈیننس میں ختم کردیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے رولز میں نہیں کیا گیا۔
عزیز بھنڈاری نے دلیل دی کہ جب پارلیمنٹ ایک قانون بناتی ہے جس کی آئین اس سے اجازت دیتا ہو کہ سپریم کورٹ کی حدود وسیع کرے پھر یہ صرف اس حوالے سے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے لیے رولز وضع کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توہین کے اختیارات کے استعمال کو ریگیولیٹ کرنے کا اختیار بھی ایک قانون فریم کرنے کے لیے ان اختیارات میں شامل کیا جائے گا جو ٹرائل اور اپیلیٹ فورم تشکیل دینے کی اجازت دیتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں بھی بالکل ایسا ہی کیا گیا ہے۔
تاہم وکیل نے اختلاف کیا اور کہا کہ آرٹیکل 184 تھری میں کچھ نہیں ہے جو کہتا ہے کہ اس کے تحت تفویض کردہ اختیارات قانون کے ذریعے ریگیولیٹ ہوسکتے ہیں، ریگیولیٹ کرنے کے اختیارات میں اپیل کا اختیار بھی شامل کرلیا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جب آئین نے قانون بنانے کے لیے خاص اختیار دیا ہے تو پھر قانون بنایا جاسکتا ہے اور اس قانون میں اپیل بھی فراہم کی جاسکتی ہے،
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 191 کے تحت کوئی اختیار نہیں ہے، رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے، انٹری 55 میں بھی یہاں تک الگ سے استعمال کیے گئے ہیں اور مجتمع نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ غداری کے آرٹیکل 6 اور توہین کے لیے اپیل کا حق دیتی تو پھر سوال بنتا تھا کہ آیا دی گئی اپیل غلط تھی۔
اپیل کا حق دیا گیا ہے تو اس میں غلط کیا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اپیل کا حق دیا گیا ہے تو اس میں غلط کیا ہے اور کہا کہ وکیل ایک سیاسی جماعت کی طرف سے پیش ہوتا ہے اور پارلیمنٹ ہاؤس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس پر دلائل بھی ملحق عمارت میں دیے جا سکتے تھے۔
وکیل نے جواب میں کہا کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ سیاسی تھا۔
سماعت کے دوران ایک پوائنٹ پر جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ جب ہم لفظ قانون پڑھتے ہیں تو ہم کس طرح دیکھتے ہیں کہ کون سی اتھارٹی مجاز ہے، چاہے وہ وفاق ہو یا صوبہ۔
درین اثنا بھنڈاری نے گزشتہ مؤقف دہرایا جس میں صوبوں نے پارلیمان کے ایکٹ کے بغیر اپیلیں سپریم کورٹ بھیجی تھیں۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’بھنڈاری صاحب، کیا یہ امتیازی نہیں ہے کیونکہ یہ اپیل اپنے اصل دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ذریعے سنائے گئے فیصلے کے خلاف فراہم کی جا رہی ہے جہاں اس کے اوپر کوئی دوسری عدالت نہیں ہے، لہٰذا درحقیقت یہ انصاف تک رسائی کے حق کو محفوظ بنا رہی ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیے کہ سوال اہلیت کا ہے، جس طرح پارلیمان آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے لیے قانون سازی کی اہلیت نہیں رکتھی، صوبہ بھی قانون سازی کا اہل نہیں ہے۔
جیسے ہی وکیل نے اپنے دلائل کی حمایت میں آئین کے آرٹیکل 175 (1) کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وہ یہ تجویز تو نہیں دے رہے کہ چیف جسٹس ہی قادر مطلق ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل بھنڈاری کی مثال لائسنس منسوخ کرنے، غصے میں عدالت کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کو ’مضحکہ خیز ’ قرار دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کیا کر سکتے ہیں، کچھ بھی نہیں، یقیناً ہم بھی انسان ہیں، میں خاموش ہوں اور آپ کا انداز بتا رہا ہے کہ آپ غلطیاں کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وکلا نے خود ہی نشان دہی کی کہ آرٹیکل 184 کو ہمیشہ غلط استعمال کیا گیا اور پارلیمان نے یہ سب دیکھا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لہٰذا انہوں نے اپیل کا حق دیا ہے، آپ پارلیمان پر انگلی اٹھا سکتے ہیں لیکن آپ چیف جسٹس کی عنانیت پر خاموش ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے غلط بھی ہوسکتے ہیں لیکن قانون کی پالیسی حتمی طور پر جڑی ہوتی ہے، اگر آپ اپیلیں دیتے رہیں گے تو یہ لاحاصل مشق ہوگی، جو پورے انصاف کے نظام کو کھوکھلا کردے گی۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن سے کسی حد تک اختلاف اور اتفاق بھی ہے، دنیا میں اپیل کے بغیر حتمیت کا تصور کہیں موجود نہیں ہے۔
وکیل عزیز کرامت بھنڈاری نے کہا کہ امریکی سپریم کورٹ کی اوریجنل حدود ہے تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس میں فرق ہے کہ امریکا میں تمام جج سماعت کرتے ہیں، امریکا سے مسلسل موازنے پر انہوں نے برہمی کا بھی اظہار کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بنیادی سوال یہی ہے کہ آیا پارلیمنٹ اپیل کا حق دے سکتی ہے یا نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر اپیل کا حق بنیادی ہے تو پھر تین ججوں کی کمیٹی کیسے حق کو کنٹرول کرسکتی ہے۔
وکیل عزیز کرامت بھنڈاری کا کہنا تھا کہ اگر ہر مقدمے میں اپیل کا حق دیا گیا تو اس کا مطلب ہے 9 بینچز ہر وقت اپیل کی سماعت کے لیے دستیاب ہوں، لارجر بینچ 8 ججوں پر مشتمل ہوگا۔
گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 25 ستمبر تک عدالتی سوالات کے جوابات کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کے لیے دونوں سینئر ججوں سے مشاورت کر رہا ہوں۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے آخر میں حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کے لیے سینئر ترین جج سردار طارق مسعود اور جج اعجازالاحسن سے مشاورت کر رہے ہیں اور یہ ہم اپنے طور پر کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے فریقین سے کہا تھا کہ وہ اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیں اور سماعت کی تاریخ 3 اکتوبر مقرر کردی تھی، جس پر درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے اتفاق کیا تھا۔
حکم نامے میں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے دائر کی گئیں درخواست فل کورٹ کی تشکیل کی بنیاد پر نمٹا دی گئی ہیں۔
درخواستوں کا متن
واضح رہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا نفاذ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو معطل کر دیا تھا۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججوں پر مشتمل فل کورٹ، ایکٹ معطلی کے فیصلے کو منسوخ کر سکتا ہے۔
قانون کو معطل کرتے ہوئے رخصت ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت عظمیٰ، پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے لیکن اس نے اس بات کا جائزہ بھی لینا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے نفاذ میں آئین سے انحراف، آئین کی خلاف ورزی یا آئین سے ماورا کوئی شق تو شامل نہیں کی گئی۔
درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا تصور، اس کی تیاری، اس کی توثیق اور اس کو منظور کیا جانا بددیانتی پر مبنی ہے، لہٰذا اسے خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو عدالت عظمیٰ کے آئین کے تحت کام یا چیف جسٹس سمیت اس کے دیگر ججز کے اختیارات میں مداخلت کا باعث ہو یا جس کے ذریعے اس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔
جسٹس سید منصور علی شاہ نے نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ وہ نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے پر غور کریں یا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی قانونی حیثیت کا فیصلہ ہونے تک انتظار کریں۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کو آج 18 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے لیے نوٹس پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔
پس منظر
10 اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا گیا۔
12 اپریل کو وفاق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔
اسی روز سپریم کورٹ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں، 2 درخواستیں وکلا اور دو شہریوں کی جانب سے دائر کی گئیں، جنہیں 13 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔
13 اپریل کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا۔
21 اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق مجلس شوریٰ (پارلیمان) کا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 دستور پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔
قانون کی شقیں
بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔
قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔