مسلم لیگ (ن) کا احتساب کے بیانیے پر نظرثانی کیلئے نواز شریف پر دباؤ
سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آنے سے قبل سابق جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا جارحانہ مؤقف اپنا لیا ہے, جس نے پارٹی کے اندر کچھ لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا اور نواز شریف اب اپنے اِس موقف پر نظرثانی کر رہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی کے اندرونی معاملات سے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ ہفتے لندن میں ایک اجلاس کے دوران ’جرنیل مخالف بیانیے‘ سے گریز کرنے کی درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب وہ اپنے اس مؤقف پر نظرثانی کرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔
ایک اور ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کی ’بیانیہ کمیٹی‘، جو سینیئر رہنماؤں پر مشتمل ہے، نے بھی نواز شریف سے کہا ہے کہ وہ ’ماضی کا قیدی‘ نہ بنیں، اُن سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی تقاریر میں خود کو مستقبل کی امید کے طور پر پیش کریں اور اسٹیٹسمین کا کردار ادا کریں۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ، مریم اورنگزیب اور عطا اللہ تارڑ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس پیش رفت کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی کے درمیان بظاہر ’بیانیے کی جنگ‘ پر پارٹی صفوں میں پائی جانے والی بے چینی حال ہی میں اس وقت عروج پر پہنچ گئی، جب سابق وزیراعظم شہباز شریف برطانیہ سے پاکستان واپسی کے محض 48 گھنٹے بعد ہی لندن واپس پہنچ گئے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ شہباز شریف کی فوری برطانیہ واپسی کی وجہ اپنے بڑے بھائی کو ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کے مطالبے پر اصرار میں کمی لانے کے لیے راضی کرنا تھا، جو اُن بااختیار حلقوں کے لیے ناپسندیدہ ہے جن کے پی ڈی ایم سے قبل برسراقتدار جماعت کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
حال ہی میں پارٹی ٹکٹ ہولڈرز سے خطاب کے دوران نواز شریف کی جانب سے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، جنرل (ر) فیض حمید اور سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ اور ثاقب نثار کے خلاف اظہار برہمی تنازع کی وجہ بنی۔
نواز شریف نے اپنے مطالبے سے باز آنے سے انکار کر دیا ہے لیکن ان کے بھائی، بیٹے اور پارٹی رہنما بظاہر انہیں اس کے برعکس قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ شہباز شریف، پارٹی کے کچھ دیگر رہنما اور ان کے بیٹے نواز شریف کو سابق جرنیلوں کے احتساب کے حوالے سے اپنی سخت پوزیشن پر نظرثانی کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بیانیہ کمیٹی نے نواز شریف سے علاقائی امن کے فروغ، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی، قومی تعمیر نو کے لیے سچائی اور مصالحتی کمیشن کی تشکیل اور معیشت کے بارے میں بات کرنے کو بھی کہا ہے، ذرائع نے کہا کہ یہ نعروں اور محاذ آرائی کا نہیں بلکہ اصلاحات کا وقت ہے۔
سابق وزیراعظم اور پارٹی صدر شہباز شریف نے گزشتہ روز یقین دہانی کروائی کہ نواز شریف کی پاکستانی واپسی کے لیے 21 اکتوبر کا پروگرام حتمی ہے اور بیرون ملک موجود پارٹی رہنماؤں کو پاکستان پہنچ کر استقبال کی تیاریاں کرنے کی ہدایت کردی۔
گزشتہ روز لندن میں واقع اسٹین ہاپ ہاؤس میں مسلم لیگ (ن) کی پارٹی سرگرمیاں جاری رہیں، جہاں پارٹی کی سینیئر قیادت نے ملاقات کی اور نواز شریف کی واپسی کے لیے لاجسٹک اور تیاریوں پر غور کیا۔
مریم نواز بھی گزشتہ شب لندن سے براستہ دبئی، پاکستان کے لیے روانہ ہونے والی تھیں اور انہیں نواز شریف کی واپسی کے تمام انتظامات اور تیاریوں کی نگرانی کا کام سونپا گیا، نواز شریف کی آمد سے قبل شہباز شریف کا آئندہ چند روز میں لندن سے پاکستان واپس روانہ ہونے کا امکان ہے۔
اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ روز اپنے تمام سینیٹرز، سابق قانون سازوں اور ٹکٹ ہولڈرز کے لیے ہدایات جاری کیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ملک میں موجود رہیں، بیرون ملک رہنے والے 3 روز کے اندر واپس آ جائیں اور اپنی توانائیاں صرف عوام کو متحرک کرنے کے لیے صرف کریں۔
پارٹی صدر کی جانب سے جاری ہدایت میں کہا گیا کہ تمام پارٹی سینیٹرز، سابق اراکین قومی اسمبلی، اراکین صوبائی اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز ملک میں ہی رہیں اور بیرون ملک رہنے والے 3 روز کے اندر واپس آجائیں، وہ تمام لوگ جو نواز شریف سے ملاقات کے لیے لندن جانے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ اپنا پروگرام ترک کردیں اور صرف عوام کو متحرک کرنے پر توجہ دیں تاکہ نواز شریف کا تاریخی استقبال کریں۔