• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

پی ٹی آئی کی قیادت ٹکراؤ نہیں، مصالحت چاہتی ہے، محمد علی درانی

شائع September 24, 2023
محمد علی درانی نے کہا کہ عمران خان یہ نہیں چاہیں گے کہ کسی کو لکیر مار کر باہر نکال دیا جائے — فوٹو: محمد علی درانی فیس بک
محمد علی درانی نے کہا کہ عمران خان یہ نہیں چاہیں گے کہ کسی کو لکیر مار کر باہر نکال دیا جائے — فوٹو: محمد علی درانی فیس بک

پاکستان مسلم لیگ فنکشنل (پی ایم ایل-ف) کے سیکریٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات محمد علی درانی نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت ٹکراؤ نہیں، مصالحت چاہتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں اینکر پرسن نادر گرامانی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

محمد علی درانی سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں وفاقی وزیر اطلاعات رہ چکے ہیں اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھا جاتا ہے۔

سینئر سیاستدان ان دنوں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جب کہ انہوں نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے بھی ملاقاتیں کی ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے پی ٹی آئی کے وفد سے بھی ملاقات کی تھی۔

ان ملاقاتوں سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میری ملاقاتوں کا ایجنڈا وہی ہے جو عوام کی خواہش ہے، میں اس وقت جہاں بھی جاتا ہوں، وہاں عوام کی پریشانی دیکھتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کی خواہش دیکھتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ عوام یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ٹکراؤ کی کیفیت کم ہو اور عوام سمجھتے ہیں کہ ان کی مشکلات میں کمی بھی اس ٹکراؤ کی کیفیت میں کمی سے ہی ہوگی۔

سینئر سیاستدان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں میں نے جتنی بھی ملاقاتیں کی ہیں، یہ ملاقاتیں صدر مملکت، پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ہوئی ہیں، تو ان ملاقاتوں کے دوران اس چیز کا احساس ہوا ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت ٹکراؤ بالکل نہیں چاہتی، وہ مصالحت چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مثبت سوچ ہے جس کے نتیجے میں مجھے امید ہے وہ راستے نکلیں گے جو ملک کو اس وقت درپیش مسائل سے نکالیں گے۔

محمد علی درانی نے کہا کہ وہ رہنما کہتے ہیں ہم تو وہ لوگ ہیں جو سیاسی عمل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میری عمران خان سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن جن لوگوں کی چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ ملاقات ہوئی ان کے مطابق عمران خان ہر ایک سے ہر سطح پر بات چیت کے لیے تیار ہیں، عمران خان کا کہنا ہے کہ ہر ایشو پر بات چیت ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان یہ نہیں چاہیں گے کہ کسی کو لکیر مار کر باہر نکال دیا جائے، عمران خان یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ کسی کو مائنس ون کیا جائے، ظاہر ہے کوئی بھی جماعت ایسا نہیں چاہے گی۔

سابق سینیٹر نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات کرنے والوں نے جو مجھے بتایا ہے، اس سے مجھے ان کا ذہن یہی لگا ہے کہ وہ یہ سب چاہتے ہیں، عمران خان ایسی مفاہمت چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک اور جمہوریت آگے بڑھے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ٹکراؤ والے جو لوگ تھے وہ تو چلے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ محمد علی درانی، گزشتہ برسوں کے دوران بھی مصاحلت اور مفاہمت کرتے نظر آتے رہے ہیں، 2021 میں جب عمران خان وزیر اعظم تھے اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ان کی حکومت کے خلاف متحرک نظر آرہے تھے اس وقت بھی محمد علی درانی افہام و تفہیم کی ضرورت پر زور دیتے دکھائی دیے تھے۔

اس وقت بھی انہوں نے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹکراؤ سے بچنے کے لیے نئے راستے اور تدابیر سوچنی چاہئیں اور استعفے سمیت دیگر امور پر ٹریک ٹو مذاکرات کا مؤقف رکھا تھا۔

رہنما فنکشنل لیگ نے کہا تھا کہ مستقبل کے راستے مذاکرات سے ہی نکلیں گے اور گرینڈ ڈائیلاگ شروع کرنے سے پہلے ایجنڈا سیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں محمد علی درانی نے کہا تھا کہ یہ مذاکرات ریاست کی سطح پر ہونے چاہئیں اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے چاہتے ہیں کہ راستہ نکلے اور مشکلات کم ہوسکیں۔

اس سے قبل 2020 میں محمد علی درانی نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کی تھی اور انہیں قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دینے کے فیصلے سے باز رہنے کی اپیل کی تھی۔

اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے محمد علی درانی نے کہا تھا کہ ’پاکستان کے اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ایک ’ٹریک 2‘ ڈائیلاگ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس (ڈائیلاگ) کی خوبصورتی یہ ہے کہ اسے (عوام کے سامنے) نہیں لایا جائے گا بلکہ اس کے نتائج سامنے آئیں گے، موجودہ صورتحال کا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر اس ڈائیلاگ کا آغاز ہو۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024