چوہدری پرویز الہٰی کی مشکلات کم نہ ہوسکیں، رہائی کے بعد پھر گرفتار
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر چوہدری پرویز الہٰی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے 3 ایم او کے تحت گرفتاری معطل کرنے پر رہائی کے بعد وفاقی دارالحکومت سے ایک مرتبہ پھر گرفتار کرلیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا کہ ’پرویز الہٰی کو تھانہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے مقدمہ نمبر 3/23 میں گرفتار کر لیا‘۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پرویز الہٰی کی گرفتاری کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے کہا کہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی کی ایک مرتبہ پھر گرفتاری ہوئی ہے، پاکستان مکمل طور پر لاقانونیت کا حامل ملک بن گیا ہے یہاں تک کہ عدالت کے حکم کا احترام بھی نہیں کیا جاتا۔
چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل سردار عبدالرزاق نے اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں تمام حدود پار کی گئی ہیں اور یہ ناانصافی ملک اور اس کے اداروں کے ساتھ ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون اور آئین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی کی وکلا کی ٹیم کو پولیس نے انتظار کروایا اور تعاون نہیں کیا گیا اور جیسے ہی وہ میرے ساتھ کار میں باہر آئے تھے تو چند لوگ جو پہلے سے وہاں موجود تھے ہمارے راستے میں آئے اور انہوں نے زبردستی ہماری کار کا دروازہ کھولا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے، ہمارے ڈرائیور اور معاون کو باہر نکال دیا دیا گیا اور پرویز الہٰی کو اغوا کرلیا گیا، ہمیں سی ٹی ڈی تھانے جانے کا کہا گیا۔
پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر چوہدری پرویز الہٰی کی رہائی کے بعد گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی شرم ناک ہے کہ فاشسٹ حکومت کی جانب سے کس طرح عدالت کی حکم عدولی کی جارہی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ پرویز الہٰی کا جرم پاکستان کے لیے کھڑے ہونا ہے، انتہائی دباؤ کے باوجود پی ٹی آئی نہ چھوڑنے کا جرم ہے اور ملک میں مکمل طور پر لاقانونیت ہے۔
اسلام آباد میں سی ٹی ڈی تھانے میں 18 مارچ کو تھانہ رمنا کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ملک رشید کی شکایت پر درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں اسلام آباد پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان جوڈیشل کمپلیکس کے باہر ہونے والے تصادم کا ذکر کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کی دفعات 148، 149، 186، 353، 380، 395، 427، 435، 440 اور 506 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت درج کی گئی ہے۔
اسلام آباد میں 18 مارچ کو پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان تصادم ہوا تھا۔
وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے پی ٹی آئی کارکنان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے جوڈیشل کمپلیکس میں جلاؤگھیراؤ کیا اور پولیس چیک پوسٹ نذر آتش کی، دوسری جانب پی ٹی آئی نے پولیس پر چیئرمین پی ٹی آئی کی گاڑی پر شیلنگ کا الزام عائد کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا پرویز الہٰی کی رہائی کا حکم
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بتایا تھا کہ پرویز الہٰی کو عدالت کے حکم پر روانہ کردیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے چوہدری پرویز الہیٰ کی ایم پی او آرڈر کے تحت گرفتاری کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت کی تھی۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے بعد ازاں تحریری حکم نامہ جاری کردیا، جس میں کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا پرویز الہٰی کی نظر بندی کا حکم نامہ لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے خلاف ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں پرویز الہٰی کو گرفتار کرنے والے توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں اور لاہور ہائی کورٹ توہین عدالت کے تحت آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کرچکی ہے۔
عدالت نے کہا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا پرویز الہٰی کی نظر بندی کا حکم نامہ معطل کیا جاتا ہے اور اگر کسی دوسرے مقدمے میں گرفتاری مطلوب نہیں تو پرویز الہٰی کو رہا کردیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز الہی کو ہدایت کی کہ یقینی بنائیں کہ رہائی کے بعد امن و امان کی صورت حال کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
عدالت نے 12 ستمبر کو مقرر اگلے سماعت میں ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اسلام آباد اور پرویز الہٰی دونوں کو پیش ہونے کی ہدایت کی اور کہا کہ فریقین درخواست پر نکات جمع کرائیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت
اس سے قبل جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا کہ وہ تین ماہ سے جیل میں ہیں، وہ کیسے نقض امن کے حالات پیدا کر سکتے ہیں، عدالت کی ہدایت پر پرویز الہیٰ کے وکیل نے تھری ایم پی او آرڈر پڑھا، انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی نے چار ماہ سے کوئی بیان تک نہیں دیا۔
وکیل نے کہا کہ اسلام آباد میں پرویز الہٰی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں، وہ اینٹی کرپشن کے کیس میں مقدمے سے ڈسچارج ہو چکے، نیب کے مقدمے میں بھی لاہور ہائی کورٹ ان کی گرفتاری غیر قانونی قرار دے چکی، جیسے ہی لاہور ہائی کورٹ سے رہا کیا گیا تو لاہور پولیس کی حراست سے چھین لیا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اسلام آباد میں کوئی ہنگامہ آرائی، کوئی جلسہ جلوس انہوں نے کیا؟ وکیل پرویز الہٰی نے کہا کہ انہوں نے کوئی جلسہ، جلوس، کوئی ہنگامہ کبھی نہیں کیا، شہریار آفریدی کے خلاف اسی قسم کا آرڈر پاس کرنے پر ڈی سی اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چل رہی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری نے استفسار کیا کہ چوہدری پرویز الہٰی کو پہلی بار کب گرفتار کیا گیا تھا؟ وکیل نے کہا کہ یکم جون کو گرفتار کیا گیا تھا، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ تو پرویز الہٰی 3 ماہ سے زائد عرصے سے حراست میں ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز الہٰی کا تھری ایم پی او معطل کر تے ہوئے پرویز الہٰی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے پرویز الہٰی کو آئندہ سماعت پر عدالت کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الہٰی آئندہ سماعت تک کسی قسم کا کوئی بیان نہیں دیں گے۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت منگل (12 ستمبر) تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثوں اور سرکاری ٹھیکوں میں مبینہ گھپلوں کے الزام میں قومی احتساب بیورو (نیب) میں گرفتار چوہدری پرویز الہٰی کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو رہا کیا جائے اور کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔
ان کی رہائی کے چند گھنٹے بعد گھر جاتے ہوئے اسلام آباد پولیس نے انہیں پھر گرفتار کرلیا تھا، اسلام آباد پولیس نے کہا تھا کہ پرویز الہٰی کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم پر 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا کہ پرویز الہٰی پولیس، انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق پرویز الہٰی امن و امان کی صورت حال کو نقصان پہنچانے میں ملوث رہے ہیں۔
اس میں کہا گیا کہ انٹیلی جنس اداروں کے مطابق پرویز الہٰی امن و امان کی صورت حال کے لیے خطرہ ثابت ہوں گے، انٹیلی جنس اداروں کے مطابق پرویز الہٰی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف منصوبے بنا چکے ہیں۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے کہا کہ اسلام آباد پولیس، انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے پرویز الہٰی کو 3 ایم پی او کے تحت 30 دن گرفتار رکھنے کی تجویز ہے، لیکن پرویز الہٰی کو 15 دن کے لیے 3 ایم پی او کے تحت قید میں رکھنے کا حکم دیتا ہوں۔
گزشتہ روز اٹک جیل میں طبیعت خراب ہونے کے بعد چوہدری پرویز الہٰی کو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز منتقل کیا گیا جہاں ان کے مختلف ٹیسٹ کیے گئے۔
پمز کے ترجمان ڈاکٹر مبشر ڈاہا نے ڈان کو بتایا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا ہسپتال میں ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹروں نے معائنہ کیا، ان کی طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما کو معمول کے چیک اپ کے لیے ہسپتال لایا گیا، ان کا بلڈ پریشر چیک کیا گیا اور کچھ لیب ٹیسٹ بھی کرائے گئے، ان کی طبیعت بالکل ٹھیک تھی، اس لیے کوئی میڈیکل بورڈ قائم نہیں کیا گیا۔
میڈیکل چیک اپ کے بعد سابق وزیر اعلیٰ کو سخت سیکیورٹی میں واپس جیل منتقل کر دیا گیا۔
جیل ذرائع کے مطابق پرویز الہٰی نے پیر کی صبح جیل حکام سے اپنی صحت کی خرابی کی شکایت کی، اس کے بعد اٹک ڈسٹرکٹ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جواد الہٰی کی سربراہی میں تین رکنی میڈیکل ٹیم نے ان کا معائنہ کیا اور مزید معائنے اور ٹیسٹ کے لیے پمز ریفر کر دیا۔
پرویز الہٰی کی گرفتاری اور مقدمات
پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 9 مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
انہیں پہلی بار یکم جون کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے ان کی لاہور رہائش گاہ کے باہر سے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
اگلے ہی روز لاہور کی ایک عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن اے سی ای نے انہیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج اسی طرح کے ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔
اس کے بعد گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے انہیں 3 جون کو فنڈز کے غبن سے متعلق بدعنوانی کے دو مقدمات میں بری کر دیا تھا۔
مقدمے سے ڈسچارج ہونے کے باوجود اینٹی کرپشن اسٹیبلمشنٹ نے پھر پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی میں ’غیر قانونی بھرتیوں‘ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔
9 جون کو ایک خصوصی انسداد بدعنوانی عدالت نے اے سی ای کو غیر قانونی تعیناتیوں کے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا ’آخری موقع‘ دیا تھا۔
اسی روز قومی احتساب بیورو حرکت میں آیا اور گجرات اور منڈی بہاالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر غبن میں ملوث ہونے پر صدر پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کردی گئی۔
12 جون کو سیشن عدالت نے غبن کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے مذکورہ حکم کو معطل کردیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں دوبارہ جوڈیشل لاک اپ بھیج دیا۔
20 جون کو پرویز الہٰی نے بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیا لیکن جیل سے رہا نہ ہو سکےکیونکہ ان کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔
اسی روز ایف آئی اے نے ان پر، ان کے بیٹے مونس الہٰی اور تین دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔
جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے انہیں جیل سے حراست میں لے لیا اور منی لانڈرنگ کیس میں انہیں روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
24 جون کو لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ کیس ضمانت منظورکی تھی۔
تاہم 26 جون کو لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں انہیں دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے فوراً بعد ایف آئی اے نے انہیں کیمپ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔
12 جولائی کو لاہور کی سیشن عدالت نے غیر وضاحتی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے کیس میں پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے انکار کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست خارج کردی۔
اس کے دو روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اے سی ای کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔
بعد ازاں 15 جولائی کو بینکنگ جرائم کی ایک عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی کیمپ جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔
تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا اور پولیس نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف غالب مارکیٹ تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
یکم ستمبر کو چوہدری پرویز الہٰی کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد گھر جاتے ہوئے پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا تھا، بعدازاں 2 ستمبر کو پرویز الہٰی کو اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔