عدالت کا کل درخواست ضمانت پر سماعت تک ایمان مزاری کو زنانہ تھانے میں رکھنے کا حکم
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردی کے مقدمے میں انسانی حقوق کی کارکن ایمان زینب مزاری کے 2 ہفتے کے جوڈیشل ریمانڈ کے فیصلے کے کچھ دیر بعد ہی ان کی درخواست ضمانت پر کل (بروز ہفتہ) ہونے والی سماعت تک دارالحکومت کے خواتین کے تھانے میں رکھنے کی ہدایت جاری کردی۔
3 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد ایمان مزاری کو عدالت میں کیا گیا، انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج ابوالحسنات نے ایمان مزاری کے خلاف تھانہ بہارہ کہو میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمے کی سماعت کی۔
وکیل قیصر امام اور پراسیکوٹر راجا نوید عدالت کے روبرو پیش ہوئے، ایمان مزاری کی والدہ شیریں مزاری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔
پراسیکیوٹر راجا نوید نے ایمان مزاری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پر عدالت نے ایمان مزاری کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔
اس موقع پر ایمان مزاری کی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی، وکیل قیصر امام نے کہا کہ ایمان مزاری کی طبی صورتحال ٹھیک نہیں، ایمان مزاری کے وکلا نے طبی بنیادوں پر سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی، وکیل زینب جنجوعہ نے کہا کہ اس کیس میں بہت وقت ہو چکا ہے، کل کے لیے رکھ لیں۔
عدالت نے ایمان مزاری کی ضمانت کی درخواست پر کل سماعت کی استدعا منظور کرتے ہوئے نوٹس جاری کر دیے، عدالت نے کہا کہ ایمان مزاری کو کل تک اسلام آباد کے تھانہ ویمن میں ہی رکھا جائے، جج نے کہا کہ خاتون ہونے کی بنا پر کیس کی سماعت پیر سے کل کے لیے رکھ رہے ہیں۔
عدالت نے درخواست ضمانت پر نوٹس جاری کرتے ہوئے کل دلائل طلب کر لیے جب کہ 4 ستمبر تک فریقین سے جواب طلب کر لیا۔
عدالت نے پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی اور ایمان مزاری کو راہداری پر خواتین پولیس اسٹیشن بھیج دیا۔
پسِ منظر
واضح رہے کہ سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ ایمان مزاری کو 20 اگست کی صبح ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اسلام آباد کے ترنول پولیس اسٹیشن اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پولیس اسٹیشن میں دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئیں۔
یہ گرفتاریاں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے زیر اہتمام منعقدہ جلسے کے 2 دن بعد کی گئیں، جلسے سے پی ٹی ایم کے رکن علی وزیر اور ایمان مزاری دونوں نے خطاب کیا تھا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر زیر گردش جلسے کی ویڈیوز میں مقررین کو جبری گمشدگیوں کے معاملے پر فوجی اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے سنا گیا تھا۔
دونوں کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں پیش کیا گیا، جہاں ان کے خلاف درج 2 مقدمات کی سماعت ہوئی تھی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ کے ڈیوٹی جج احتشام عالم نے بغیر اجازت جلسہ کرنے اور کار سرکار میں مداخلت پر تھانہ ترنول میں درج مقدمے میں ایمان مزاری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 2 ستمبر کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
دونوں ملزمان کے خلاف دوسری ایف آئی آر دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کی گئی تھی۔
22 اگست کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے بغاوت، دھمکانے اور اشتعال پھیلانے کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں علی وزیر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ اسی مقدمے میں ایمان زینب مزاری کی ضمانت منظور کرلی تھی۔
تاہم ایمان مزاری دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج دوسرے مقدمے میں 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں تھیں، لہٰذا ان کی رہائی ممکن نہیں ہوسکی تھی۔
28 اگست کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بغاوت اور اشتعال پھیلانے کے کیس میں ایمان زینب مزاری اور سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت منظور کرلی تھی، تاہم رہائی کے فوری بعد پولیس نے ایمان مزاری کو دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ ایمان زینب مزاری کو بہارہ کہو میں درج مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے، ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے۔