چینی کی قیمت میں اضافہ جاری، 185 روپے فی کلو تک جاپہنچی
اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی جانب سے متعلقہ حکام کو چینی کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی روکنے کی ہدایت کے باوجود عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا اور چینی کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چینی کی فی کلو تھوک قیمت 4 روپے اضافے کے بعد 164 روپے تک جا پہنچی، جس کے سبب خوردہ قیمتوں پر دباؤ آیا اور اس کی قیمت بڑھ کر 180 روپے ہوگئی۔
مارٹس اور آن لائن اسٹورز پر منگل کو چینی کی قیمت 170 سے 175 روپے سے بڑھ کر 185 روپے تک جا پہنچی ہے۔
بڑھتی ہوئی تھوک قیمتوں نے متعدد آئن لائن اور دکانداروں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ پہلے سے موجود ذخائر سے بڑی تعداد میں پیسے بنائیں۔
پی ڈی ایم حکومت کے 16 ماہ میں رٹ نہ ہونے کے بعد صارفین کو یقین ہے کہ نگران سیٹ اپ نے پیٹرولیم مصنوعات کی فی لیٹر قیمت 20 روپے بڑھا کر، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے زیادہ مایوس کیا ہے۔
تاجروں نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان کو چینی کی اسمگلنگ غیر رسمی چینلز کے ذریعے جاری ہے جبکہ ذخیرہ اندوزی اور سٹہ بازی میں کوئی کمی نہیں دیکھی جارہی، مزید کہا کہ بڑھتی قیمتیں حیران کن ہیں کیونکہ ملک میں 22 لاکھ 70 ہزار ٹن چینی کا ذخیرہ موجود ہے۔
پاکستان سے مالی سال 2023 کے دوران چینی کی برآمدات 2 لاکھ 15 ہزار 751 ٹن رہیں، جس سے 10 کروڑ 40 لاکھ ڈالر حاصل ہوئے جبکہ مالی سال 2022 کے دوران صفر درآمدات تھیں، جولائی میں 5 ہزار 542 ٹن چینی برآمد کی گئی جس سے 34 لاکھ ڈالر حاصل ہوئے جبکہ جولائی 2022 میں صفر برآمد تھی۔
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) کی جانب سے وعدہ کیا گیا تھا کہ مالی سال 2022 کے ذخائر پر چینی کی (ایکس مل) قیمت 85 سے 90 روپے فی کلو سے زیادہ نہیں ہوگی، جس کے بعد حکومت نے 2 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔
کراچی ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن (کے ڈبلیو جی اے) کے چیئرمین رؤف ابراہیم نے سوال اٹھایا کہ کب نگران حکومت کی رٹ نظر آئے گئی، یکم اگست سے اب تک چینی کی فی کلو قیمت میں 21 روپے اضافہ ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں اور سٹے بازوں کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور شوگر ملز کے اسٹاکس کو چیک کرنے کے لیے کوئی کوششیں نہیں کی جارہیں، سپریم کورٹ کو غذائی اشیا، جیسے چینی، گندم اور چاول کی قیمت میں بڑے اضافے پر ازخود نوٹس لینا چاہیے۔
رؤف ابراہیم نے بتایا کہ چینی کی افغانستان اسمگلنگ ہونے کے سبب حکومت کو بھی ریونیو کی مد میں نقصان ہو رہا ہے۔