نگران وزیر خزانہ کی آئی ایم ایف کے ساتھ پہلی بات چیت، پالیسی برقرار رکھنے کا عزم
نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے عملے کے مشن کے ساتھ تعارفی بات چیت کی، اس حوالے سے رپورٹ کیا گیا کہ انہوں نے وعدہ کیا کہ نگران حکومت معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت کیے گئے پالیسی اقدامات پر ثابت قدمی سے عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ دونوں فریقوں کے پاس پروگرام کے نفاذ کی ایک غیر رسمی اپ ڈیٹ تھی، جس میں اکتوبر یا نومبر کے اوائل میں ہونے والے دوسرے سہ ماہی جائزے کی کامیابی سے تکمیل کے لیے ضروری ساختی معیارات پر خاص زور دیا گیا تھا، جس کے تحت ستمبر کے آخر کے اعداد و شمار کی بنیاد پر تقریباً 71 کروڑ روپے کی دوسری قسط دسمبر میں ملے گی۔
ڈاکٹر شمشاد اختر اور آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے تبصروں کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
تاہم باخبر ذرائع نے بتایا کہ حکومتی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ حال ہی میں سیکریٹری خزانہ کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے کو بتایا گیا کہ بجلی کے نرخوں میں 26 فیصد اضافے کے نوٹی فکیشن اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے ساتھ جولائی کے آخر تک ضروری پالیسی اقدامات مکمل کر لیے گئے ہیں، اور (نیپرا) نے شرح تبادلہ کے سبب ہونے والے نقصانات اور شرح سود کو پورا کرنے کے لیے ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے خودکار نوٹی فکیشن کے لیے سماعت کا عمل مکمل کر لیا ہے۔
بتایا گیا کہ طریقہ کار کے سبب کچھ تاخیر ہو سکتی ہے لیکن واجبات کی وصولی کو اس طرح یقینی بنایا جائے گا کہ گردشی قرضے طے شدہ اہداف کے اندر ہی رہیں گے، اور انہیں کمی ہوتی کھپت اور اختتامی سہ ماہی کے معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے پورا کیا جاتا ہے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعرات کی شام ہونے والی بات چیت میں بنیادی ٹیرف میں اضافہ، بھاری فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے بجلی کے بلوں کے آسمان کو چھونے کے خلاف بڑے شہروں میں پُرتشدد مظاہروں کا تصور نہیں کیا گیا جبکہ 5 روپے 40 پیسے فی یونٹ کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ ابھی ہونا باقی ہے، یہ وصولیوں پر منفی اثر ڈال سکتا ہے اور اس سے گردشی قرضے اہداف سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔
حکومت کو نومبر کے آخر تک مالیاتی انتظام کے لیے تمام سرکاری اداروں کو سینٹرل مانٹیرنگ یونٹ (سی ایم یو) کی نگرانی میں رکھنے کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف کے حکومت سے حکومت کی بنیاد پر پورٹس کی سہولیات کی حالیہ آؤٹ سورسنگ کے بارے میں متعدد سوالات ہیں اور اس سلسلے میں نومبر کے آخر تک اسٹرکچرل معیار کی اہمیت پر دوبارہ زور دیا گیا، نومبر کے آخر کے بینچ مارک کے تحت حکومت کو سرکاری ملکیتی اداروں کی گورننس کے لیے قانون کو بہتر بنانا ہے جو ملکیت کے انتظامات کو الگ کرتی ہے۔
انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں شرح تبادلہ کے درمیان طے شدہ حد سے آگے بڑھتے ہوئے فرق کو بھی دیکھا جا رہا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ ایس بی اے معاہدے کے تحت پاکستان نے ہفتہ وار اوسط کی بنیاد پر فرق کو 1.25 فیصد کے اندر رکھنے کا عہد کیا ہے تاہم حالیہ ہفتوں میں یہ فرق 3 سے 4 فیصد تک رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے عالمی مالیاتی ادارے کو یقین دہانی کرائی ہے کہ شرح تبادلہ کسی سرکاری مداخلت یا مصنوعی ماحول کے بغیر مارکیٹ پر مبنی رہے گا۔