• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

حکومتی اتحادیوں کی نگران حکومت کو بااختیار بنانے کیلئے مجوزہ ترمیم کی مخالفت

شائع July 25, 2023 اپ ڈیٹ July 26, 2023
پی پی سینیٹرز نے ترمیم کی تجویز کی مخالفت کی— فوٹو: ڈان نیوز
پی پی سینیٹرز نے ترمیم کی تجویز کی مخالفت کی— فوٹو: ڈان نیوز

حکومتی اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز اور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن ایکٹ 2017 کے مجوزہ سیکشن 230 کی مخالفت کردی۔

مسلم لیگ (ن) نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ نگران حکومت کو منتخب حکومت کی طرح کے اختیارات دینے کے لیے ترامیم متعارف کی جائیں گے تاکہ نگران حکومت کو اہم فیصلے کرنے کا اختیار ملے گا۔

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر نے ڈان کو بتایا تھا کہ ’نگران حکومت کو انتخابات تک صرف روزانہ کے امور چلانے تک محدود نہیں کیا جائے گا اور نگران سیٹ اپ کو بااختیار کرنے کے لیے ترمیم لائی جائے گی تاکہ جس طرح منتخب حکومت فیصلے کرتی ہے اسی طرح کے اختیارات استعمال کرے‘۔

نگران حکومت کو اختیار دینے کے ترامیم رواں برس ہونے والے انتخابات سے متعلق مجوزہ ترامیم میں شامل ہے۔

انتخابی ترامیم آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کردی گئی تھیں۔

اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ مجھے عام ترامیم پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن سیکشن 230 میں تبدیلی پر اعتراض ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیکشن 230 میں ترمہم اس وقت مفادات کا ٹکراؤ ہے کیونکہ نگران سیٹ اپ کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے کئی فیصلے موجود ہیں اور کہا گیا ہے کہ ایک منتخب حکومت کے مقابلے میں ان کا کردار بالکل مختلف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی مختصر عرصے 60 سے 90 روز کے لیے حکومت کے روز کے معمول کے امور چلانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ حکومت سرد خانے میں نہیں جاتی بلکہ نگران سیٹ اپ کی رفتار سست ہوتی ہے، یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ وہ ایک غیرمنتخب حکومت ہے اور اس سے منتخب حکومت کے سائیکل پر نہیں رکھی جاسکتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے ایجنڈے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہاں 25 کے قریب تحاریک اور بل ایجنڈے پر موجود ہیں، ان میں سےکسی بھی قانون یا بل کی ترمیم کا مسودہ ارکان کو فراہم نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میں آپ ( اسپیکر) کو استدعا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اس کی اجازت نہ دیں کیونکہ اس میں رولز اور ایکٹ کے حوالے سے بہت حساس ترامیم آرہی ہیں اور جب تک اراکین اسمبلی اس کو پڑھ نہ لیں اس وقت تک یہ مناسب نہیں ہوگا۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ یہاں پر بہت باتیں کی گئیں کہ کمیٹی میں یہ ہوا وہ ہوا، جو رولز بنے انہوں نے بھی اس بات کو مدنظر رکھا کہ بل قائمہ کمیٹی سے پاس ہو کر آئے گا اور یہ بھی کہا گیا کہ اراکین اور ہاؤس کے لیے اگر کوئی ترمیم آئے گی تو اس کے لیے ایک دن کا نوٹس لازم ہے۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ کرنا تابوت پر آخری کیل لگانے کے مترادف ہے۔

پی پی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی میں انتخابی اصلاحات پر سیکشن 2030 میں ترمیم کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی اور کہا کہ یہ ترمیم آئین کے خلاف ہے۔

حکومت کے ایک اور اتحادی جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضٰی نے کہا کہ سیکشن 230 میں ترمیم پارلیمانی کمیٹی میں زیر بحث نہیں آئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کرنا منتخب نمائندوں کا کام ہے اور نگران حکومت کا کام نہیں ہے، نگران سیٹ اپ کو 3 یا 6 ماہ حکمرانی دینے کے لیے کوئی بھی ترمیم آئین کے تصور کے خلاف ہوگی۔

کامران مرتضٰی نے کہا کہاں کی جماعت سیکشن 230 میں ترمیم کے حق میں نہیں اور اپنی جماعت کی اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی میں بڑی مثبت بات چیت ہوئی تھی لیکن سیکشن 230 پر بات نہیں ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے توقع تھی صرف ان ترامیم اور شقوں پر بات ہوگی جس پر کمیٹی میں تبادلہ خیال اور فیصلہ ہوا تھا اور پارلیمنٹ میں وہی ترامیم پیش کی جائیں گی لیکن یہ مایوس کن ہے کہ اضافی ترامیم مشکوک انداز میں سامنے ارہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں حیران ہوں اور وضاحت چاہتا ہوں کہ یہ کیسے ہوا۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے رضا ربانی کے اعتراضات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایجنڈا فراہم نہیں کیا گیا، جس بل (الیکشن ایکٹ) کو ہم نے پڑھا تک نہیں، جس کی ترامیم کا ہمیں علم نہیں اس پر کیسے گفتگو کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بل پر کوئی بات نہ کی جائے جس سے مخصوص لوگوں کو خوش کیا جائے، آج صرف ملکی مسائل پر بات کی جائے۔

انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے رات 2 بجے تک نتائج جاری ہوں گے، وزیر قانون

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ نتائج تین تین روز تک روک لیے جاتے ہیں اس لیے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے ہر صورت رات 2 بجے تک نتائج ظاہر کرنے ہوں گے۔

وزیر قانون کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر قانون کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب — فوٹو: ڈان نیوز

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جہاں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے خط لکھا جس میں بتایا گیا کہ کچھ چیزوں میں ترمیم ہونی ہے جیسا کہ لفظ ’فاٹا‘ ابھی تک الیکش ایکٹ کا حصہ تھا، حالانکہ 2018 میں اس کو خیبرپختونخوا میں ضم کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو بہت اعتراضات ہوئے اور اس میں شفافیت کی کمی محسوس کی گئی تھی، حالانکہ 2017 کا الیکشن ایکٹ بڑی محنت کے بعد تیار کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ قانون میں ترامیم کرنی پڑتی ہیں، جب الیکشن کمیشن نے لکھا کہ کچھ جگہوں پر ترمیم ہونی ہے جس کے بعد آپ (اسپیکر) نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں تمام جماعتوں کے نمائندگان نے شرکت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کمیٹی کے متعدد اجلاس کیے، 11 تاریخ کو تین گھنٹے کا سیشن ہوا، 12 تاریخ کو پھر اجلاس ہوا، اسی طرح 13 جولائی اور 17 جولائی کو بھی اجلاس منعقد کیے تھے اور بلآخر 18 جولائی کے اجلاس میں رپورٹ تیار کرلی گئی۔

وزیر قانون نے کہا کہ اس رپورٹ میں الیکشن کمیشن ایکریڈیٹ کا لکھا گیا، رکن اسمبلی کے اثاثوں کے حوالے سے ان کے اہل خانہ کو بھی شامل کیا گیا، ٹیکنوکریٹ کی تشریح میں ابہام تھا جس کی وجہ سے کہا گیا کہ ان کو درست کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پریزائیڈنگ افسر نتائج روک لیتے ہیں جس کی وجہ سے پولنگ ایجنٹس کی شکایات موصول ہوتی ہیں اس لیے کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ جب پریزائیڈنگ افسر نتائج مکمل کرلیں گے تو وہ فارم 45 کی تصویر بناکر الیکشن کمشنر کو بھیج دیں گے اور پولنگ ایجنٹ کو دستخط شدہ کاپی دیں گے، اگر وہ نہیں دیں گے تو ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نتائج تین تین روز تک روک لیے جاتے ہیں اس لیے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے ہر صورت رات 2 بجے تک نتائج ظاہر کرنے ہوں گے اور پریزائیڈنگ افسر ایک سرٹیفکیٹ لگا کر ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچیں گے اور نہیں پہنچ سکتے تو صبح 10 بجے تک ان کے پاس آخری وقت ہوگا اور انہیں ایک ایک گھنٹے کا ریکارڈ رکھنا ہوگا، لہٰذا اگر اس عمل میں تاخیر ہوئی تو کارروائی ہوگی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہر بار ایک نیا بینک اکاؤنٹ کھولنے کا کہا جاتا ہے اس لیے ہم نے تجویز کیا ہے کہ جو بینک اکاؤنٹ موجود ہوگا اس سے بینک اسٹیٹمنٹ دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ سب چیزیں سامنے ہیں، کوئی بھی چیز چھپا کر نہیں ہو رہی، ان تجاویز کو منظور کرنا یا مسترد کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔

ایسی بات کرتے ہوئے جس کا ماضی بھی ہو اس پر کچھ شرم و حیا ہونی چاہیے، خواجہ آصف

اس موقع پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ یہاں ایک منٹ میں 54 قانون سازی کی گئی تھیں، میڈیا اس وقت لائیو دکھا رہا تھا کہ اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قانون سازی کروا رہے تھے، ایسی بات کرتے ہوئے جس کا ماضی بھی ہو اس پر کچھ شرم و حیا ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر میرے ہاتھ صاف ہیں تو میں کسی پر انگلی نہیں اٹھاؤں گا، میں اس بات کا حامی ہوں کہ قانونی طریقے کی پیروی کی جائے لیکن یہ انگلی اٹھانے والے جو ہاتھ ہیں اس وقت ان کا ضمیر کہاں تھا جب اس شخص نے اسی سانس میں اسمبلی تحلیل کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024