• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سپریم کورٹ: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر نظرثانی کی دوسری درخواست بھی خارج

شائع July 21, 2023
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف پی ٹی آئی کی حکومت نے درخواست دائر کی تھی—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف پی ٹی آئی کی حکومت نے درخواست دائر کی تھی—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سابق حکومت کی دائر کردہ کیوریٹو ریویو کی درخواست موجودہ اتحادی حکومت کی جانب سے واپس لینے پر خارج کردی۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے وفاقی حکومت کی جانب سے کیوریٹو ریفرنس واپس لینے کی درخواست منظور کرتے ہوئے 13 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کے قانون میں کیوریٹو ریویو کی کوئی گنجائش نہیں ہے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریویو واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کی درخواست منظور کی جاتی ہے، کیوریٹو ریویو کی درخواستیں بظاہر قابل سماعت بھی نہیں، بینچ کے کسی رکن نے یا کسی اور جج نے نظرثانی فیصلے کو دوبارہ قابل غور نہیں سمجھا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ کسی جج نے بنیادی حقوق یا عوامی مفاد پر فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا نہیں کہا، ایسے کسی عدالتی نکتہ نظر کی عدم موجودگی میں دوبارہ نظرثانی کی درخواست کا جواز نہیں بنتا۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس عمر عطابندیال کی 10 اپریل کو وفاقی حکومت کی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیو ریٹیو ریویو واپس لینے کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں ہوئی تھی جہاں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد پیش ہوئے تھے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد ریفرنس واپس لینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریری حکمنامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر نظر ثانی درخواستیں 26 اپریل 2021 کو خارج ہوگئی تھیں لیکن پی ٹی آئی نے مذکورہ درخواستیں خارج ہونے کے خلاف کیوریٹیو ریویو دائر کیا تھا تاہم موجودہ حکومت نے وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد کیوریٹیو ریویو واپس لینے کی درخواست دائر کردی تھی۔

پی ٹی آئی کی سابق حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے استدعا کی تھی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں اس کے 26 اپریل 2021 کے اکثریتی فیصلے کو’صاف اور صریح طور پر غیر منصفانہ، مفاد عامہ اور عوامی بھلائی کے خلاف ہونے کی وجہ سے میدان میں نہیں چھوڑا جانا چاہیے ’۔

26 اپریل 2021 کو عدالت عظمیٰ نے 6-4 کی اکثریت سے 19 جون 2022 کے اپنے اس اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس میں عدالت نے ٹیکس حکام کو جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر تین غیر ملکی جائیدادوں کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

کیوریٹو اپیل صدر ڈاکٹر عارف علوی، سیکریٹری قانون کے توسط سے سابق وفاقی حکومت، سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر وغیرہ کے جانب سے دائر کی گئی تھی۔

کیوریٹیو ریویو میں دلیل دی تھی کہ 26 اپریل کے اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے دروازے عام طور پر بند کر دیے ہیں اور ساتھ ہی ریکارڈ پر آنے والے الزامات اور معلومات کے حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ کے احتساب کے دروازے بھی بند کر دیے۔

اپیل میں کہا گیا تھا کہ اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے معیار کو بھی کمزور کر دیا تھا بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو عدالتی آزادی کے نظریے کے پیچھے چھپنے کے لیے ڈھال فراہم کی گئی ہے تاکہ عدالتی احتساب سے بچ سکیں۔

اپیل کے مطابق اکثریتی فیصلہ اس بات پر زور دینے میں بھی ناکام رہا کہ حکام، ججوں، قاضیوں اور سرکاری ملازمین کا فرض ہے کہ وہ اپنے مالیات اور اثاثوں کی وضاحت کریں، جس کی ابتدا ہمارے مذہب اور شاندار ورثے کی مرہون منت ہے۔

اپیل میں زور دیا گیا تھا کہ سرکاری ملازمین، اہلکاروں، ججوں، قاضیوں وغیرہ کے قریبی رشتہ داروں جیسے ان کی شریک حیات اور زیر کفالت بچوں کے مالی معاملات کی بھی وضاحت ضروری ہے۔

بعد ازاں گزشتہ برس پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت قائم ہوئی، جس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔

رواں برس 30 مارچ کو وزیراعظم شہباز شریف نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینےکاحکم دے دیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم کے حکم کے بعد 31 مارچ کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سول ریویو پیٹیشن میں سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف کیوریٹیو ریویو پٹیشن اور سی ایم اے واپس لینے کی منظوری دے دی تھی۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے23 جون 2022 کو ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت کو کیوریٹو نظرثانی درخواست واپس لینے کا مشورہ دیا گیا ہے اور بعد ازاں حکومت نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریویو واپس لینے کے لیے درخواست دائر کردی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اور فیصلہ

سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا تھا، مئی 2019 سے جون 2020 تک یہ معاملہ تقریباً 13 ماہ تک چلا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

7 اگست 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا تھا۔

بعد ازاں 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست منظور کرلی تھی۔

عدالت نے اپنے حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے آف شور اثاثوں کا معاملہ وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کو بھیجنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 19 جون 2020 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔

29 اپریل 2021 کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مزید کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

تاہم پی ٹی آئی حکومت نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دوسری مرتبہ نظر ثانی کی درخواست (کیوریٹو ریویو) دائر کیا تھا جبکہ 2022 میں آنے والے اتحادی حکومت نے مذکورہ درخواست واپس لینے کے لیے درخواست دائر کی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024