• KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am
  • KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am

انٹیلیجنس ایجنسی سمیت 4 اداروں کو پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں دیے گئے قرضوں کی تحقیقات کا حکم

شائع July 5, 2023
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران اراکین کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا—تصویر: کمیٹیز آف این اے ٹوئٹر
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران اراکین کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا—تصویر: کمیٹیز آف این اے ٹوئٹر

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے ایک انٹیلی جنس ایجنسی سمیت چار اداروں کو کووڈ-19 وبا کے دوران صفر شرح سود پر 620 افراد کو دیے گئے تقریباً 3 ارب ڈالر کے قرضوں کے معاملے کی مشترکہ تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان نے متعلقہ محکموں کو فنڈ کی تقسیم سے فائدہ اٹھانے والے 600 سے زائد افراد کے ناموں سے پردہ اٹھانے اور معاملے کی تحقیقات کرنے کی ہدایت کی جن میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)، آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی)، قومی احتساب بیورو (نیب) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) شامل ہیں۔

اجلاس کے دوران نور عالم خان نے الزام لگایا کہ بعض صنعت کاروں میں اربوں ڈالر تقسیم کیے گئے۔

اس دوران سینیٹر محسن عزیز اور رکن قومی اسمبلی برجیس طاہر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، سینیٹر محسن عزیز نے اجلاس کو بتایا کہ یہ رقم عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی گئی جس کے ذریعے 32 لاکھ ملازمتیں پیدا ہوئیں، 4 ارب ڈالر کی آمدن ہوئی جس کا فائدہ بالآخر ملک کو ہوا۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ’آپ فہرست فراہم کرنے کا حکم ضرور دیں لیکن قرض کی تقسیم کے بعد معیشت کو پہنچنے والے فوائد پر بھی بات کریں۔‘

جس پر رکن قومی اسمبلی برجیس طاہر نے جواب دیا کہ کمیٹی کو یہ جاننے کا حق ہے کہ غیر ملکی قرضہ کیسے اور کہاں لگایا گیا۔

دونوں اراکین کو اجلاس کو مچھلی بازار میں نہ بدلنے کی تلقین کی گئی اور سینیٹر محسن عزیز کے بار بار طنز کے بعد چیئرمین نے دونوں کے مائیک بند کر دیے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اراکین ان 600 سے زائد کاروباری شخصیات کی فہرست فراہم کیے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے جنہیں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں عالمی وبا کے دوران کمرشل بینکوں نے 10 برس کے لیے صفر شرح سود پر تقریبا 3 ارب ڈالر کے قرضے جاری کیے تھے۔

پی اے سی کے اجلاسوں میں 2 مرتبہ رکن قومی اسمبلی برجیس طاہر نے مطالبہ کیا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) 600 سے زائد افراد کی تفصیلات کمیٹی کو پیش کرے۔

اسی طرح کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے بھی یہ پوچھا تھا کہ ’ان 600 افراد کو یہ قرضے کن قوانین کے تحت جاری کیے گئے؟‘

پی اے سی کو بتایا گیا تھا کہ بینکوں نے وبا کے دوران یہ قرضے رعایتی شرحوں پر فراہم کیے تھے، جس کا مقصد کووڈ-19 کے پھیلاؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کے دوران سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔

کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ وزارت خزانہ کو 19 اپریل کو ان لوگوں کے نام بتانے کی ہدایت کی گئی تھی جنہوں نے بغیر سود کے 3 ارب ڈالر کا قرض لیا، کمیٹی نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک نے ابھی تک یہ فہرست فراہم نہیں کی۔

لوڈشیڈنگ میں اضافے اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے چیئرمین پی اے سی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عید بھی گرڈ اسٹیشنز پر گزاری ہے، انہوں نے ایسے وقت میں افسران کی تنخواہوں میں اضافے پر اعتراض کیا جبکہ عوام بجلی کی شدید بندش کا شکار ہیں۔

نور عالم خان نے کہا کہ پاور ڈویژن کے اداروں میں 2 سال سے بے شمار انکوائریاں ہو رہی ہیں لیکن ذمہ داریوں کا تعین کیے بغیر سب بے سود ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ کرپشن کے 8 کیسز میں 9 ارب 20 کروڑ روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہوئی ہے، جس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے انرجی ڈویژن کے 9.2 ارب روپے کے 8 آڈٹ پیراگراف کی تحقیقات ایف آئی اے کے حوالے کر دیں۔

اس کے جواب میں پاور ڈویژن کے سیکریٹری راشد محمود نے اراکین کو بتایا کہ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 23 کھرب 70 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔

سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ پاور ڈویژن کے سیکریٹری توانائی کو ایف آئی اے کی تحقیقات پر کوئی اعتراض نہیں تاہم انہوں نے جاری انکوائریوں کو دیکھنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دینے کی درخواست کی۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024