بُک ریویو: ’اَن ولِنگ سلیوز‘
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی غیر مساوی اور اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہی پاکستان نے اپنی حفاظت اور بھارتی خطرے سے خود کو دور رکھنے کے لیے فوجی اور اقتصادی امداد کے لیے خود کو امریکا پر منحصر پایا۔
1954ء میں اس انحصار نے پاکستان کو میوچل ڈیفینس ایگریمنٹ پر دستخط کرنے، اسی سال کے آخر میں ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (SEATO) میں شامل ہونے اور سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (CENTO) کا پیش خیمہ ثابت ہونے والے 1995ء کے بغداد معاہدے میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔
1962ء میں امریکی جاسوس طیارہ جس نے پشاور کے قریب بڈا بیر گاؤں میں سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی خفیہ ایئر بیس سے اڑان بھری تھی، ماسکو کو اوپر مار گرایا گیا جس کے بعد پیدا ہونے والا سنگین بحران، پاکستان اور سوویت یونین کی دیرینہ دشمنی کا باعث بنا۔
جب تعلقات میں بہتری کے لیے پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے 1965ء میں سوویت یونین کا دورہ کیا تو امریکا نے پاکستان کی حیثیت کو اسٹریٹجک اتحادی سے کم کرکے ٹیکٹیکل اتحادی کی کردی۔
پاکستان کے لیے توازن قائم رکھنا ہمیشہ سے ہی مشکل عمل رہا ہے۔
کتاب ’اَن ولنگ سلیوز: پاکستانز اسٹریٹجک چوائسز ان دی 1990s‘ سیاسی اور بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر طلعت فاروق کی تصنیف ہے جبکہ اس کا عنوان لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کے امریکا کے حوالے سے اس تبصرے سے لیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ’آقا بننا‘ چاہتا ہے۔
پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ نے کہا تھا کہ ’ہم کبھی کبھی غلام ہونے کا کھیل کھیلتے ہیں، لیکن ہم ہمیشہ اپنی مرضی سے غلام نہیں بنتے‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کھیل کھیلتا ہے اور چینی قیادت کے مشورے کے مطابق، ٹیکنیکل سطح پر امریکا کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ ساتھ ہی اپنے اہداف بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرزِعمل کی وجہ سے پاکستان پر بار بار امریکی الزامات عائد ہوتے رہے ہیں کہ وہ ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔
سچ پوچھیں تو پاکستان ہمیشہ سے ایسا کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ مثال کے طور پر 1980ء کی دہائی میں، آئی ایس آئی نے افغان مزاحمت کو بین الاقوامی سطح تک لانے کے لیے سی آئی اے کے منصوبے کی مکمل حمایت کی۔ تاہم، امریکا نے افغانستان میں اپنے مقاصد کی تکمیل میں پاکستان کے علاقائی سلامتی کے تقاضوں کو اہمیت نہیں دی۔
1990ء کی دہائی میں مکمل طور پر ایک مختلف کھیل جاری تھا۔ اس تناؤ کے دور میں ایران-عراق جنگ ابھی تھمی ہی تھی، آخری سوویت افواج افغانستان سے نکل چکی تھیں، سوویت یونین کا آہنی پردہ (آئرن کرٹن) چاک ہوچکا تھا، دیوار برلن گرچکی تھی، عراق نے کویت پر حملہ کیا جس کے جواب میں امریکی قیادت میں اتحادیوں نے عراق کو پیچھے ہٹانے کے لیے حملہ کیا۔ یوں امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا اور اس نے نیو ورلڈ آرڈر کے اعلان کے ذریعے خود کو مضبوط کیا۔
1993ء سے 2001ء تک بل کلنٹن کا دورِ صدارت طلعت فاروق کی کتاب کا محور ہے۔ امریکا نے اپنی داخلی سیاست اور معیشت پر توجہ دینے کا انتخاب کیا اور یوں کلنٹن انتظامیہ نے افغانستان سے ہاتھ اٹھا لیے اور اس کے جنوبی ایشیائی مفادات دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ پہلا مفاد پاکستان کی قیمت پر بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کو فروغ دینا اور دوسرا پاکستان کو جوہری طاقت بننے سے روکنا۔
پاکستان کو روکنے کی امریکا کی کوشش میں دو خامیاں تھیں۔ ایک یہ کہ امریکا یہ تسلیم کرنے میں ناکام رہا کہ پاکستان کے لیے بھارت کے ساتھ جوہری برابری حاصل کرنا کتنا اہم ہے۔ دوسری خامی یہ تھی کہ پابندیاں لگا کر امریکا نے ’پاکستان کے رویے میں تبدیلی‘ کے امکانات کو ختم کردیا۔
باریک بینی سے تحقیق کے بعد مرتب کی گئی طلعت فاروق کی یہ کتاب، پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے عروج و زوال کے پس منظر کا بھرپور احاطہ کرتی ہے۔ ان تعلقات میں ایک تیسرا فریق بھی شامل ہے جوکہ بھارت ہے۔ پاکستان کے بھارت سے متعلق نقطہ نظر کو نظرانداز کرتے ہوئے، امریکا نے چین کے بارے میں بھارت کے موقف کو باآسانی قبول کیا ہے۔
بقول جنرل پرویز مشرف فروری 1989ء میں سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد، امریکیوں نے ’ہمیں مصیبت میں چھوڑ دیا‘۔ 30 لاکھ افغان مہاجرین کے لیے ایک مستحکم افغانستان کی ضرورت تھی جسے پاکستان نے اسے اپنے طریقے سے سنبھالنے کی کوشش کی۔
ہماری شمال مغربی سرحد پر بھاری ہتھیاروں سے لیس پختونوں کی موجودگی اور ٹنوں کی مقدار میں امریکی اور سوویت فوجی سازوسامان کو کشمیر میں جاری آزادی پسند تحاریک کی مدد کے لیے وہاں کی راہ دکھائی گئی۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار کیے گئے اگرچہ اس سے ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کے الزامات عائد ہوئے لیکن پاکستان انتہائی مہارت سے ان الزامات سے بچا رہا۔
پاکستان کے اسٹریٹجک انتخاب کے حوالے سے 3 پہلو آپس میں منسلک ہیں، پہلا پاکستان کے جوہری ہتھیار اور ان کو ہدف تک پہنچانے کا نظام، دوسرا پہلو طالبان جبکہ تیسرا کشمیر ہے۔ کتاب میں تمام پہلوؤں سے ان مسائل کو مناسب طور پر پیش کیا گیا ہے۔
نیز، دونوں اجنب کے اہم کرداروں کا انٹرویو کر کے مصنفہ ان کے خیالات کی ایک نادر جھلک پیش کرتے ہیں جو پالیسی فیصلوں کو آگے بڑھاتی ہے۔ کسی بھی چیز کا جواز پیش نہ کرتے ہوئے وہ پاکستان کے پالیسی سازوں کے فکری عمل پر روشنی ڈالتی ہیں جنہوں نے اس طرح کے اقدامات کو ملک کی بقا کے لیے بہت ضروری سمجھا۔
طالبان کے ایک مضبوط قوت کے طور پر ابھرنے کے حوالے سے امریکی پالیسی مبہم تھی۔ تاہم پاکستان نے طالبان کو اپنی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے اہداف کو مزید وسعت دینے کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔ جیسا کہ طلعت فاروق نے روشنی ڈالی ہے کہ پاکستان کا دفتر خارجہ 1997ء میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے خلاف تھا لیکن ایسا کرنے کے لیے آئی ایس آئی نے انہیں مجبور کیا۔
اس کتاب میں پاکستانی آرمی چیف کی طرف سے 91-1990ء میں آئے خلیجی بحران کے تناظر میں استعمال کیے گئے ’اسٹریٹجک ملٹری انٹیمیشن‘ اور ’اسٹریٹجک ڈیفینس‘ اور کو افغانستان کے تناظر میں ’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘ جیسی غیر سوچی سمجھی، مبہم اور ناقص اصطلاحات پر بھی بحث کی گئی ہے۔
1990ء کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان اپنی معیشت کو وسعت دے رہا تھا اور امریکا پاکستان کی قیمت پر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ جبکہ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن پاکستان اور بھارت کے ساتھ علیحدہ علیحدہ بنیادوں پر تعلقات رکھنا چاہتے تھے۔
جنوری 1995ء کے امریکا-بھارت سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کے ساتھ ایک نئی سیکیورٹی جہت متعارف کروائی گئی جس نے سرد جنگ کے بعد کی حکمت عملیوں کا جائزہ لینے اور فوجی رابطوں کو بڑھانے کے لیے ایک دفاعی پالیسی فورم قائم کیا۔ اس قدام اور اس کے ساتھ پریسلر امینڈمنٹ، جس نے پاکستان پر اس کے جوہری عزائم کی وجہ سے پابندیاں عائد کی تھیں، نے پاکستان کی پریشانیوں کو مزید بڑھا دیا تھا۔
1984ء کی پریسلر امینڈمنٹ نے امریکی فوجی امدادی پروگراموں کی تمام اقسام کو ختم کر دیا تھا۔ یہ دراصل سمنگٹن (1976ء) اور گلین (1977ء) امینڈمنٹ کی ہی ایک نرم شکل تھی۔ پریسلر امینڈمنٹ کی خامی وہ صدارتی سرٹیفیکیشن تھی کہ پاکستان کے پاس جوہری ڈیوائس نہیں ہے اور نہ ہی اسے بنانے کے لیے پیش رفت کی جارہی ہے، اس سقم نے اس وقت تک پاکستان کی مدد کی جب تک کہ افغانستان میں پاکستان کی مدد کی ضرورت باقی نہ رہی۔
70 کروڑ ڈالرز کی امریکی امداد جو 94-1988ء تک وعدہ کی گئی تھی، اسے اکتوبر 1990ء کے بعد معطل کر دیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ 28 ایف 16 طیاروں اور دیگر فوجی ساز و سامان جس کی ادائیگی پہلے ہی کر دی گئی تھی، اس کی منتقلی کو روک دیا گیا تھا۔ اس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی پیدا ہوئی، خاص طور پر اس وقت جب سے پاکستان کو طیاروں کے پارکنگ چارجز کی ادائیگی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ سینیٹر لیری پریسلر کے رویے نے ہندوستان کی جانب جھکاؤ کو ظاہر کیا جبکہ ان کی انتخابی مہم کے لیے ہندوستانی نژاد امریکی کمیونٹی کی جانب سے فراخدلی سے عطیات دیے گئے تھے۔
اگرچہ بظاہر امریکا بھارت کے جوہری عزائم کے متعلق فکر مند نہیں تھا لیکن پاکستان کو فکر لاحق تھی۔ اپریل 1998ء میں پاکستان نے کم از کم 15 ممالک بشمول امریکا کو بھارت کے متوقع جوہری تجربات کے حوالے سے باضابطہ طور پر مطلع کیا تھا۔ اس کے باوجود جب 11 اور 13 مئی کو ایٹمی دھماکے ہوئے اس وقت امریکا کی توجہ پاکستان کو جوہری دھماکے کرنے سے روکنے پر تھی۔ امریکا نے ہندوستان کے حوالے سے پاکستان کے خدشات کو اہمیت نہیں دی یا پھر وہ بھارت کے ایٹمی دھماکے روک نہیں سکا، جس کی وجہ سے پاکستان کے پاس اسی مہینے کے آخر میں ایٹمی دھماکے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔
مئی 1998ء میں بھارت کے جوہری تجربات پر پاکستان کا ردعمل، 1999ء کے وسط میں کارگل جنگ اور اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت، یکے بعد دیگرے ہونے والے ان تین واقعات نے امریکا کو مزید دور کردیا۔ یہاں تک کہ جب بل کلنٹن نے 2000ء میں جنوبی ایشیا کا دورہ کیا تب انہوں نے بھارت میں 5 دن جبکہ اسلام آباد میں بمشکل 5 گھنٹے ہی گزارے۔
اس کتاب میں موجود طلعت فاروق کے تفصیلی تجزیوں میں ہمیں جو کچھ ملتا ہے وہ بلی اور چوہے کا کھیل ہے جس میں چوہا یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کتنا رسک لے سکتا ہے۔ ایک اور پہلو جو سامنے لایا گیا وہ یہ ہے کہ امریکا نے اپنی امداد کو جبر کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا۔ تاہم، 1990ء کی دہائی میں اس امداد کو روکنے کا ردِعمل یہ سامنے آیا کہ خطے میں امریکا کے اثرورسوخ میں کمی واقع ہوئی۔
کتاب کی اختتامی سطر اس کا بہترین خلاصہ پیش کرتی ہے کہ ’1990ء کی دہائی میں اپنے اسٹریٹجک انتخاب کا خمیازہ پاکستان اور امریکا اب بھی بھگت رہے ہیں‘۔
کتاب: اَن ولنگ سلیوز، پاکستانز اسٹراٹیجک چوائسز ان دی 1990s
مصنفہ: طلعت فاروق
ناشر: پیراماؤنٹ کراچی
صفحات: 328
یہ مضمون 25 جون 2023ء کو ڈان بُکس اینڈ آتھرز میں شائع ہوا۔