پی ٹی آئی کارکنان کو پارٹی چھوڑنے پر اکسانے پر پرویز خٹک کو شوکاز نوٹس جاری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور خیبرپختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو ’کارکنوں سے رابطہ کرنے اور انہیں پارٹی چھوڑنے پر اکسانے‘ پر شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ نوٹس پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے پرویز خٹک کو جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ یہ بات پارٹی قیادت کے علم میں آئی ہے کہ آپ پارٹی کے اراکین سے رابطہ کر رہے ہیں اور انہیں پارٹی چھوڑنے کے لیے اکسا رہے ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ان رپورٹ شدہ سرگرمیوں کے پیش نظر آپ کو اس نوٹس کے سات دنوں کے اندر تحریری طور پر وضاحت دینے کی ہدایت کی جاتی ہے، اگر آپ کا جواب غیر اطمینان بخش ہوتا ہے یا آپ جواب نہیں دیتے ہیں تو پارٹی کی پالیسی اور قواعد کے مطابق آپ کے خلاف مزید کارروائی کی جائے گی۔
2013 سے 2018 تک خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی پہلی حکومت کی قیادت کرنے والے پرویز خٹک نے وفاق میں اپنی پارٹی کی حکومت کے دوران وزیر دفاع کے طور پر خدمات انجام دیں اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کے خاتمے کے بعد پارٹی کا صوبائی صدر بنایا گیا تھا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر پرویز خٹک کی پی ٹی آئی سے علیحدگی کے حوالے سے افواہوں اور خبروں کی بھرمار ہے۔
خیبرپختونخوا میں پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران سابق وزیراعلیٰ نے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سمیت پی ٹی آئی کے سابق قانون سازوں سے کئی ملاقاتیں کیں تاکہ انہیں پارٹی چھوڑنے پر آمادہ کیا جا سکے، تاہم یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ پرویز خٹک کے ساتھ کس کس نے جہاز سے چھلانگ لگائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب کے برعکس خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے بہت سے رہنما الیکٹ ایبلز نہیں ہیں، پارٹی نے انہیں لیڈر بنایا ہے، ہمارے اصول اور خاندانی روایات بھی یہ حکم دیتی ہیں کہ مصیبت کے وقت ہمیں کسی سے الگ نہیں ہونا چاہیے۔
پارٹی رہنما نے کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کو بھی پتا چلا تھا کہ پرویز خٹک پارٹی اراکین کی وفاداری تبدیل کرا رہے ہیں اور انہوں نے کہا کہ جو لوگ دباؤ اور گرفتاری برداشت نہیں کر سکتے وہ پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔
تاہم عمران خان نے پرویز خٹک کی جانب سے دیگر اراکین کو پی ٹی آئی چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی کوششوں پر سخت اعتراض کیا اور اسی وجہ سے انہیں شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف کیے جانے والے کریک ڈاؤن کے بعد پرویز خٹک نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
پرویز خٹک سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششوں کے باوجود وہ تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔
2011 میں پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے پہلے پرویز خٹک پاکستان پیپلز پارٹی-شیر پاؤ سے وابستہ رہے، جسے اب قومی وطن پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کا نام دیا گیا ہے۔
9 مئی اور 10 کے پرتشدد واقعات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں اب تک تقریباً 3 ہزار پی ٹی آئی کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، پارٹی کے کئی رہنما، سابق رکن قومی اور صوبائی اسمبلی گرفتاری کو ناکام بنانے کے لیے روپوش تھے، ان میں سے بہت سے لوگوں کے خلاف پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں کو 9 اور 10 مئی کو احتجاج کے لیے اکسانے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں مقدمے میں نامزد کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے کچھ رہنما اور کارکنان عدالتوں سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تاہم سابق وفاقی وزیر مراد سعید، سابق وزیر اعلیٰ محمود خان اور ان کی کابینہ کے ارکان کامران بنگش، تیمور سلیم جھگڑا سمیت دیگر افراد تاحال روپوش ہیں۔