لاہورجناح ہاؤس حملہ کیس: چیئرمین پی ٹی آئی، اہلیہ کے سمن جاری
پنجاب پولیس نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور پارٹی کے دیگر 4 رہنماؤں کو جناح ہاؤس حملہ کیس کی تحقیقات میں شامل ہونے کے لیے آج بروز بدھ شام 7 بجے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (انویسٹی گیشن) لاہور کے دفتر میں طلب کر لیا۔
سابق وفاقی وزیر حماد اظہر اور عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی کو بھی آج حاضری کے نوٹسز 20 جون کو جاری کیے گئے تھے۔
سمن میں کہا گیا ہے کہ ایس پی سول لائنز اور ماڈل ٹاون، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی، سابق وفاقی وزیر حماد اظہر اور حسان خان نیازی کی حاضری کو یقینی بنائیں۔
سمن میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کو 21 جون کو شام 7 بجے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن آفس لاہور ایبٹ روڈ، قلعہ گجر سنگھ میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیا جائے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ ملزمان تھانہ سرور روڈ میں درج مقدمے کی تفتیش میں پیش ہوں گے، مقدمہ 10 مئی کو قتل، اقدام قتل، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور دہشت گردی کے دفعات کے تحت درج ہوا تھا۔
اس مقدمے میں عمران خان کو مبینہ طور پر حملہ آوروں کی حوصلہ افزائی کے الزام میں نامزد کیا گیا جنہوں نے جناح ہاؤس میں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگا دی۔
اسی طرح کا نوٹس سابق وزیر مراد سعید کو بھی جاری کیا گیا ہے تاہم انہیں 23 جون کو پولیس کے سامنے پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔
دوسری جانب عمران خان کے قانونی مشیر ایڈووکیٹ عظیم اللہ خان نے رات 8 بجے سے کچھ دیر قبل ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ انہیں ابھی کچھ دیر پہلے زمان پارک میں نوٹس موصول ہوا ہے۔
لیگل ایڈوائزر نے کہا کہ اتنی جلدی پیش نہیں ہو سکتے، چیئرمین تحریک انصاف اور بشریٰ بی بی پیش نہیں ہوں گے۔
وکیل قتل کیس، 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ کے 3 مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت منظور
لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ کے 2 مقدمات میں 7 جولائی اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل عبدالرزاق شر کے قتل کے مقدمے میں 3 جولائی تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
کوئٹہ میں درج قتل کے مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے دائر حفاظتی ضمانت کی درخواست پر جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
عمران خان اپنے وکیل اشتیاق اے خان کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے، دوران سماعت اشتیاق اے خان نے درخواستِ ضمانت کے حق میں دلائل دیے جبکہ سرکاری وکیل غلام سرور نہنگ نے درخواست کی مخالفت کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل اشتیاق اے خان نے مؤقف اختیار کیا کہ سیکیورٹی وجوہات کے باعث چیئرمین پی ٹی آئی کوئٹہ نہیں جاسکے، عدالت کوئٹہ کے مقدمے میں حفاظتی ضمانت منظور کرے۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے چیرمین پی ٹی آئی کی 3 جولائی تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔
خیال رہے کہ عبدالرزاق شر کو 6 جون کو کوئٹہ کے ایئرپورٹ روڈ پر عالمو چوک کے قریب نامعلوم حملہ آوروں نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا، مقتول بلوچستان ہائی کورٹ جارہے تھے کہ ان کی گاڑی پر خودکار ہتھیاروں سے لیس نامعلوم افراد نے حملہ کیا۔
قتل کی ابتدائی اطلاعی رپورٹ (ایف آئی آر) 6 جون کو کوئٹہ کے شہید جمیل پولیس اسٹیشن میں شر کے بیٹے ایڈووکیٹ سراج احمد کی شکایت پر درج کی گئی تھی۔
مقتول وکیل کے بیٹے نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا جس میں الزام لگایا گیا کہ ان کے والد کو سابق وزیراعظم کے کہنے پر قتل کیا گیا۔
اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ ان کے والد نے پی ٹی آئی کے سربراہ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت درخواست دائر کی تھی، درخواست گزار نے کہا تھا کہ وہ اس کیس کی وجہ سے اپنے والد کے قتل میں سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی اور دیگر افراد کے ملوث ہونے کے بارے میں ’پُریقین‘ ہیں۔
دریں اثنا لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ کے 2 مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی عبوری ضمانت 7 جولائی تک منظور کرلی۔
عدالت نے ایک، ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے پولیس کو چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری سے روک دیا۔
واضح رہے کہ تھانہ نصیر آباد پولیس اور ماڈل ٹاؤن پولیس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات درج کر رکھے ہیں، نصیر آباد پولیس کی جانب سے عمران خان کے خلاف کنٹینر جلانے کا مقدمہ جبکہ ماڈل ٹاؤن پولیس کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے آفس میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا مقدمہ درج ہے۔
گزشتہ روز لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دونوں مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے، عمران خان نے آج مذکورہ کیسز میں درخواستِ ضمانت دائر کی تھیں۔
خیال رہے کہ 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جب کہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔
مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔
اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی میں 1900 مشتعل مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔