نئے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس ایمنسٹی آئی ایم ایف کی شرائط کے خلاف قرار
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے گزشتہ ہفتے حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے مالی سال 2024کے بجٹ کے حوالے سے کئی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ قرض دہندہ پاکستان کے ساتھ اس مسودے کی منظوری سے قبل بجٹ کو بہتر بنانے پر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایک دن قبل ہی وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت آگے بڑھ رہی ہے۔
بجٹ پیش کیے جانے سے ایک روز قبل پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی مقامی نمائندہ ایستھر روئز پیریز نے کہا تھا کہ 2019 توسیعی فنڈ سہولت کے تحت زیر التوا 2.5 ارب ڈالر میں سے کچھ رقم کے اجرا کے حوالے سے بورڈ کے جائزے سے قبل پاکستان کو آئی ایم ایف کو تین معاملات پر مطمئن کرنے کی ضرورت ہے جس میں آئندہ مالی سال کا بجٹ بھی شامل ہے۔
بدھ کو رات گئے جاری ایک بیان میں ایستھر روئز پیریز نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بجٹ میں تجویز کردہ نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ایک ’نقصان دہ مثال‘ قائم کرتی ہے اور پروگرام کی شرائط کے خلاف ہے، بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ فنڈ کس خاص اسکیم کے حوالے سے مسئلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔
بیان میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ مالی سال 2024 کے بجٹ کا مسودہ ٹیکس کی بنیاد کو زیادہ بہتر انداز میں وسیع کرنے کے موقع کو گنواتا ہے اور نئے ٹیکس اخراجات کی طویل فہرست ٹیکس کے نظام کی شفافیت کو مزید کم کرتی ہے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے وصول کنندگان اور ترقیاتی اخراجات کے لیے درکار وسائل کو کم کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ توانائی کے شعبے کے لیکویڈیٹی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات کو بجٹ کی وسیع حکمت عملی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے عہدیدار نے پہلے نشاندہی کی تھی کہ قرض دہندہ کے پاس موجودہ پروگرام کے ختم ہونے سے پہلے صرف ایک بورڈ میٹنگ کا وقت تھا۔
گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں اور اسے توسیعی فنڈ سہولت کے نویں جائزے کے حصے کے طور پر گزشتہ سال اکتوبر میں آئی ایم ایف سے تقریباً 1.2 ارب ڈالر ملنے کی توقع تھی۔
لیکن تقریباً 8 ماہ گزرنے کے باوجود تاحال یہ قسط جاری نہیں کی گئی۔