فوجی تنصیبات پرحملوں کیلئے اکسانے کا الزام، صحافی صابر شاکر، معید پیرزادہ سمیت 3 افراد کے خلاف مقدمہ درج
اسلام آباد پولیس نے بیرون ملک مقیم اینکرپرسن صابر شاکر، معید پیرزادہ اور سید اکبر حسین کے خلاف 9 مئی کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملے کے لیے ’بغاوت کو ہوا دینے‘ اور لوگوں کو اکسانے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔
شہری ماجد محمود کی درخواست پر تھانہ آبپارہ میں درج کرائی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں شکایت کنندہ نے مؤقف اپنایا کہ 9 مئی کو تھانہ آبپارہ کی حدود میں ملیوڈی چوک پر تھا کہ مشتعل ہجوم نے توڑ پھوڑ اور دہشت گردی پھیلائی۔
ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب ایف آئی آر کی نقل کے مطابق شکایت گزار نے کہا کہ براہ راست توڑ پھوڑ میں ملوث 15 سے 20 نامعلوم مشتعل افراد محمد صابر شاکر، معید حسن پیرزادہ اور سید اکبر حسین سے ویڈیو پیغامات کے ذریعے ہدایات لے رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ میں ساری کارروائی کا ذمہ دار ان تین لوگوں کو سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے اپنے ویڈیو پیغامات، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے سادہ لوح لوگوں کو یہ سب کرنے پر اکسایا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ یہ لوگ سادہ لوح عوام کو عسکری تنصیبات پر حملہ کرکے ملک میں دہشت گردی پھیلا کر ملک میں بغاوت اور انتشار پھیلانا چاہ رہے تھے، یہ لوگ براہ راست 9 مئی کے واقعات میں اپنے ویڈیو پیغامات اور دیگر ذرائع سے دہشت گردی کے لیے اکساتے رہے اور اس کی تشہیر بھی کرتے رہے۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ یہ لوگ منظم سازش کے ذریعے باہم صلاح و مشورے سے غیر ملکی اور دشمن ایجنسیوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور پاک فوج کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ فوجی جوانوں کے اندر بغاوت اور ان کے حلف سے روگردانی کروانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح پاک فوج کو کمزور کر کے ملک کے اندر دہشت گردی کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندہ نے کہا کہ ملزمان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔
واضح رہے کہ 12 جون کو اسلام آباد پولیس نے بیرون ملک مقیم صحافیوں شاہین صہبائی اور وجاہت سعید خان کے ساتھ ساتھ آرمی افسر سے یوٹیوبر بننے والے عادل راجا اور اینکر پرسن سید حیدر رضا مہدی کے خلاف فوجی تنصیبات پر حملے کے لیے ’بغاوت کو ہوا دینے‘ اور لوگوں کو اکسانے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں شکایت کنندہ محمد اسلم نے کہا تھا کہ وہ 9 مئی کو دارالحکومت کے علاقے جی-11 سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے 20 سے 25 لوگوں کو دیکھا جو عادل راجا، وجاہت سعید خان، سید حیدر رضا مہدی اور شاہین صہبائی کے ٹوئٹس اور ویڈیو پیغامات کے اسکرین شاٹس شیئر کر رہے تھے۔
شہری نے ایف آئی آر میں الزام لگایا تھا کہ یہ افراد لوگوں کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے، دہشت گردی اور ملک میں افراتفری پھیلانے کے لیے اکسا رہے تھے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو پیراملٹری فورس رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں ہوئے پر تشدد احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آیا۔
احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
اس واقعے کے بعد، فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔
بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی، جو کہ قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔
بعد ازاں 20 مئی کو آرمی چیف نے کہا تھا کہ مئی کے سانحے میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کے خلاف مقدمے کا قانونی عمل آئین سے ماخوذ موجودہ اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت شروع ہو گیا ہے۔