’سپریم کورٹ کے چند مخصوص ججز اپنی انا پسِ پشت ڈال کر ملک کو آگے لے کر چلیں‘
وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چند مخصوص ججز اپنی انا کو ایک طرف رکھیں، آئین کی تعظیم کریں اور دل بڑا کریں، انا کو پسِ پشت ڈال کر اس ملک کو آگے لے کر چلیں۔
لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج ملک کی معیشت بھی انہی تنازعات کی وجہ سے مشکلات کاشکار ہے اور ملک کی ترقی بھی انتہائی سست رفتار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی دل بڑا کیا ہوا ہے حالانکہ کچھ ججز کی جانب سے خلاف ورزیاں کی گئیں لیکن ہم ان کی عزت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی عزت ہو۔
انہوں نے کہا کہ تمام ریاستی ادارے اپنی اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کریں اور کوئی بھی فردِ واحد نہ اپنے ادارے پر حاوی ہو بلکہ کسی دوسرے ادارے میں بھی مداخلت نہ کرسکے۔
عرفان قادر نے کہا کہ پاکستان کے تمام لوگ خواہ اقتدار میں ہوں یا نہیں ان کا سب سے پہلا فرض ریاست سے وفادار رہنا ہے اس کے بعد آئین و قانون کے تابع رہنا اور اس کے بعد اداروں کو اپنی حدود و قیود میں کام کرنا ہے۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ حالات کے پیش نظر ضروری ہے کہ میں دہراؤں کہ ریاست کیا ہے تو پاکستانی آئین کے مطابق ریاست وفاقی حکومت، پارلیمان، صوبائی حکومتیں، صوبائی اسمبلیاں اور تمام وہ ادارے جو مقامی ٹیکس، مقامی اختیار رکھتے ہیں وہ تمام ریاست کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لیکن آج ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چند مخصوص لوگ جن کے لیے ’ہم خیال‘ کا لفظ استعمال ہورہا ہے، ان کے فیصلوں میں ایسا پیٹرن نظر آرہا ہے اور اس ترتیب سے وہ ریاستی اداروں میں مداخلت کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ کسی مخصوص سیاسی دھڑے کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
’ہم خیال ججز مخصوص سیاسی دھڑے کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں‘
بات کو جاری رکھتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ یہ وہ سیاسی دھڑا ہے جو چند روز قبل ریاستی اداروں بشمول افواجِ پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کے اپنے لوگوں نے ساتھ چھوڑ کر کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود ابھی بھی چند ہم خیال جج صاحبان اپنے فیصلوں سے اس دھڑے کی طرف نرم گوشہ رکھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مختلف اہم مقدمات کی سماعت میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ حکومت کیا کررہی ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قانون سازی میں پہلے ہم سے مشاورت کیوں نہیں کرلی جاتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کا پہلا اور اہم جزو حکومت ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ پوری ریاست ان کی جوابدہ ہے جبکہ آئین کہتا ہے کہ سب کی پہلی وفاداری ریاست کے ساتھ ہے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ اگر کوئی مقدمہ لگتا ہے جس میں کوئی ریاستی اہلکار فریق ہے یا اس کا قانون کے خلاف کنڈکٹ سامنے آتا ہے تو عدالت کو حق ہے اس کے خلاف احکامات جاری کرے، قانونی کارروائی کی جائے لیکن یہ طریقہ کار کہ حکومت کیا کررہی ہے تو آپ ایسا نہیں کہہ سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ آئین کی دفعہ 7 کی خلاف ورزی ہے، اسی طرح پارلیمان یا حکومت نہیں کہہ سکتے کہ سپریم کورٹ کیا کررہی ہے البتہ اگر سپریم کورٹ کے چند مخصوص صاحبان نظر آئیں کہ وہ آئین و قانونی حدود کو پامال کررہے ہوں تو ان کا ذکر کیا جاسکتا ہے تاکہ انہیں قانون کے دائرے میں لایا جاسکے۔
’قانون سازی پارلیمان کا استحقاق ہے اس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں‘
عرفان قادر نے کہا کہ آئین و قانون سے کوئی بڑا نہیں، ایسا زعم ہونا کہ آئین ہمیں دستک دے رہا ہے اور ہم آئین سے بڑے ہیں، یہ سوچ غیر آئینی ہے اور کوئی بھی اس طرح کی سوچ رکھے گا تو پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہے کہ بآور کرائے کہ یہ سوچ آئین کے منافی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سب آئین کے تابع ہیں، ہم آئین سے بڑے نہیں ہیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ ابھی زیر سماعت مقدمات میں اٹارنی جنرل کو کہا گیا کہ یہ جو قانون سازی ہوتی ہے اس میں ہم سے پہلے مشاورت کیوں نہیں کرلی جاتی جبکہ قانون سازی پارلیمان کا استحقاق ہے اس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب قانون بن جاتا ہے تو عدلیہ کے پاس دو راستے ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ قانون کے سامنے سرِ تسلیم خم ہوجائے اور دوسرا یہ کہ اگر وہ قانون بن گیا ہے اور آئین کی کسی شق سے منافی ہے تو اس کی نشاندہی کی جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی کسی چیز پر عدلیہ کو اختیار ہے کہ اسے کالعدم قرار دے، یہ اختیار ہائی کورٹ کے پاس بھی ہے اور سپریم کورٹ کے پاس بھی لیکن اس طرح کے معاملات بجائے یہ کہ ہائی کورٹ میں جائیں سارے سپریم کورٹ میں جارہے ہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ آرٹیکل 184(3) کے دائرہ کار پر سپریم کورٹ کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اس کے پیرا میٹرز طے کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا پارلیمان سپریم کورٹ کے چنچ ججز کے تابع ہے یا پارلیمان سپریم کورٹ کے چند ججز کے تابع ہے، یہ سپریم کورٹ نہیں چند ججز کی بات ہے کیوں کہ عدالت عظمیٰ کے اندر سے فیصلے ہوئے ہیں جس میں بینچز کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
’کچھ لوگوں کا مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ وہ ریاست، آئین سے اوپر ہیں‘
انہوں نے کہا کہ پارلیمان ریاست ہے، حکومت ریاست ہے، عدالت کا ذکر ریاست میں اس طرح نہیں ہے، لیکن عدالت میں کچھ لوگوں کا مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ ہم ریاست، آئین اور سب سے اوپر ہیں۔
معاون خصوصی نے کہا کہ ریاست سب سے اوپر ہے پھر آئین اور باقی ادارے آتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ قانون سازی سے پہلے ان سے پوچھا جائے یہ سوچ غیر آئینی اور آمرانہ ہے، قانون سازی کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی گھبرا رہا ہے کہ توہین عدالت ہوجائے گی تو اس طرح کی سوچ تو پاکستان کے آئین کی توہین ہے، خدارا کچھ جج صاحبان اپنی سوچ کو آئین و قانون کی تعظیم اور ریاست سے وفاداری میں ڈھالیں نہ کہ ریاست سے بڑے بنیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ چاہ رہے ہیں پارلیمان ان سے پوچھے کہ کیا قانون بنانا ہے تو کل کو پارلیمان اور حکومت بھی کہہ سکتی ہے کہ آپ جو اہم کیس میں فیصلے دیتے ہیں ان میں ہم سے بھی پوچھ لیا کریں۔
عرفان قادر نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی عدلیہ کو مجروح یا کمزور کرنا چاہتے ہیں، ہم عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں پر صرف اس مخصوص ہم خیال گروہ کے ساتھ نہیں ہیں جو خود عدلیہ کے ساتھ نہیں ہے۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ وہ گروپ خود عدالتوں کے فیصلے نہیں مان رہا، انہوں نے خود ہی بینچز بنانے شروع کردیے، کیسز بھی اپنی مرضی سے جدھر کوشش کی لے جانے اور وکلا بھی مرضی کے شروع کردیے اور اگر کسی ادارے سے وکیل کرنے کی کوشش کی تو باقاعدہ کیا گیا کہ وکیل موجود ہے ادارہ وکیل نہیں کرسکتا اس کیس میں الیکشن کمیشن کی طرف سے میں خود پیش ہوا تھا۔
عرفان قادر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ دیا گیا کہ 14 مئی کو الیکشن ہوں اور 90 دن میں الیکشن کا بیانیہ بنایا گیا حالانکہ سپریم کورٹ کی اپنی دی گئی تاریخ 90 روز کی نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اسمبلی مدت سے 2،3 سال پہلے تحلیل ہوجائے تو اس کا الیکشن الگ کرایا جاسکتا ہے لیکن اب جبکہ قومی اسمبلی بھی اگست میں تحلیل ہورہی ہے تو آرام سے تمام انتخابات اکٹھا ہوسکتے ہیں اور مالی طور پر بھی یہ قابل عمل ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لگ یہ رہا تھا کہ کسی دھڑے کو فائدہ دینے کے لیے، ان کے الیکشن کرانے کے بیانیے کو مضبوط کیا جائے جبکہ اس کے کنڈکٹ کے بارے میں سپریم کورٹ کے ایک جج نے لکھا تھا کہ اس دھڑے کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ رکوانا یہ آئین سے انحراف اور دھوکا دہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دھڑے ہم مسلک چند ججز بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ غیر آئینی اقدام ہے اور جلدی سے اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں اور سپریم کورٹ میں معاملہ جانے کے بعد عدالت کے پاس اسے کالعدم قرار دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
’نظر آرہا ہے کہ عدلیہ غیر جانبدار فیصلے کررہی ہے‘
عرفان قادر نے کہا کہ ضروری ہے کہ ہماری عدلیہ آئین و قانون کے مطابق غیر جانبدار اور درست فیصلے کرے لیکن نظر یہ آرہا ہے کہ وہ غیر جانبدار فیصلے کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس سے اس بات کو مزید تقویت ملی کہ کچھ لوگ سارے نظام میں کوئی مداخلت کرنا چاہ رہے ہیں، فیصلوں میں مخصوص ججز کو ملایا جارہا ہے سینیئر ججز کو نظر انداز کیا جارہا ہے جس پر عدالت کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں پارلیمان نے قانون سازی اور اس قانون کو بننے سے پہلے ہی معطل کردیا گیا جو کہ کبھی نہیں ہوا تھا، یہ تو وہی بات ہوگئی کہ سپریم کورٹ پارلیمان سے بالاتر ہوگئی جو کہ وہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پٹیشن وہی دھڑے یا ان کے ہمدرد دائر کررہے ہیں اور انہی ججز کے پاس سنوائی کے لیے جارہی ہیں، دونوں قانون میں کوئی شق آئین و قانون سے متصادم نہیں ہے ۔
معاون خصوصی نے کہا کہ میں صرف یہ توقع کرتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے جو چند مخصوص ججز ہیں وہ اپنی انا کو ایک طرف رکھیں، آئین کی تعظیم کریں اور دل بڑا کریں، انا کو پسِ پشت ڈالیں اور اس ملک کو آگے لے کر چلیں۔
انہوں نے کہا کہ آج ملک کی معیشت بھی انہی تنازعات کی وجہ سے مشکلات کاشکار ہے اور ملک کی ترقی بھی انتہائی سست رفتار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی دل بڑا کیا ہوا ہے حالانکہ کچھ ججز کی جانب سے خلاف ورزیاں کی گئیں لیکن ہم ان کی عزت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی عزت ہو۔