ملکی برآمدات میں مسلسل نویں ماہ کمی، مئی میں 17 فیصد گر گئیں
پاکستان کی اشیا کی برآمدات میں مسلسل 9 مہینے تنزلی جاری ہے، جو مئی میں سالانہ بنیادوں پر 16.96 فیصد کمی کے بعد 2 ارب 18 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 11 مہینے کے دوران برآمدات 12.14 فیصد گر کر 25 ارب 36 کروڑ ڈالر رہ گئیں، جو گزشتہ برس کے اسی عرصے میں 28 ارب 87 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔
برآمدات میں کمی کی بنیادی وجوہات میں اندرونی و بیرونی عوامل ہیں، جن کے سبب خاص طور پر ٹیکسٹائل یونٹس کی بندش کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
ادارہ شماریات کے مطابق مئی میں درآمدات بھی 36.76 فیصد تنزلی کے بعد 4 ارب 27 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں، جو گزشتہ برس کے اسی مہینے میں 6 ارب 76 کروڑ ڈالر تھیں، رواں مالی سال میں جولائی تا مئی کے دوران درآمدات 29.22 فیصد کمی کے بعد 51 ارب 15 کروڑ ڈالر کی سطح پر آگئیں جو گزشہ سال کے اسی عرصے کے دوران 72 ارب 28 کروڑ ڈالر تھیں۔
حکومت نے پُرتعیش اور غیر ضروری اشیا کی درآمدات کو روک رکھا ہے اور صرف خام مالی، سیمی فنشڈ اشیا، ادویات، فوڈ اور توانائی کی مصنوعات کی درآمدات کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، اس کے نتیجے میں درآمدی بل کم ہوا۔
مالی سال 2023 میں جولائی تا مئی کے دوران تجارتی خسارہ 40.59 فیصد کمی کے بعد 25 ارب 79 کروڑ ڈالر رہ گیا جو گزشتہ برس کے اسی مدت کے دوران 43 ارب 40 کروڑ ڈالر تھا، مئی میں سالانہ بنیادوں پر تجارتی خسارہ 49.49 فیصد کمی کے بعد 2 ارب 8 کروڑ ڈالر رہ گیا۔
برآمدات میں منفی نمو رواں مالی سال کے پہلے مہینے جولائی میں شروع ہوئی جبکہ اگست میں معمولی اضافہ دیکھا گیا تھا، برآمدات میں کمی ایک تشویشناک عنصر ہے، جو ملک کے بیرونی کھاتے میں توازن پیدا کرنے میں مسائل پیدا کرے گا۔
ٹیکسٹائل اور کپڑے کا ملکی برآمدات میں 60 فیصد سے زائد حصہ ہے، اس میں کمی سے حکومت کے لیے برآمدی ہدف حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
برآمد کنندگان نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی حکمت عملی کے فقدان اور مؤثر طریقے سے ترجیح دینے میں ناکامی کے باعث ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی آرہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برآمدات میں تنزلی کی بنیادی وجہ میں سرمائے کی قلت، ریفنڈز کا پھنسنا جیسا کے سیلز ٹیکس، مؤخر سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، مقامی ٹیکسز اور لیویز پر ڈیوٹی ڈرا بیک، ٹیکنالوجی کو اَپ گریڈ کرنے کا فنڈ اور ڈیوٹی ڈرا بیک شامل ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بدقسمتی سے ریفنڈ کا تیز تر نظام ارادے کے مطابق کام نہیں کر رہا ہے، اب ریفنڈز میں 72 گھنٹے کے بجائے 3 سے 5 مہینے لگتے ہیں۔
برآمد کنندگان نے مزید کہا کہ شعبے کو مالیاتی اور توانائی کی لاگت میں نمایاں اضافے کا بھی سامنا ہے۔