پی ٹی آئی خواتین کے ساتھ دورانِ حراست مبینہ بدسلوکی، نگران حکومتِ پنجاب، پولیس سے جواب طلب
لاہور ہائی کورٹ نے نگران حکومت پنجاب اور پولیس سے فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ سمیت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خواتین کارکنان کے ساتھ دوران حراست مبینہ بدسلوکی اور 9 مئی کے پرتشدد واقعات میں ان کی رہائی کی درخواستوں پر جواب طلب کر لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک مشترکہ درخواست میں خدیجہ شاہ کے والد و سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ اور شوہر جہانزیب امین نے وکیل کے ذریعے استدعا کی کہ پولیس نے خدیجہ شاہ کو جناح ہاؤس پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گرفتار کر رکھا ہے۔
وکیل نے دلیل دی کہ پولیس نے ٹرائل کورٹ سے خدیجہ شاہ کا 30 مئی تک جوڈیشل ریمانڈ حاصل کیا اور شناخت پریڈ کے لیے انہیں جیل منتقل کر دیا، تاہم جوڈیشل ریمانڈ ختم ہونے کے باوجود پولیس نے انہیں ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ خدیجہ شاہ کو کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا ہے، ان کے اہل خانہ اور وکیل بھی ان سے ملنے نہیں جاسکے، ان کی صحت اور حالات کے بارے میں مختلف رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں لیکن ان کے اہل خانہ اس کی تصدیق کے لیے ان سے ملاقات نہیں کر سکے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ اس کیس میں خاتون کارکنان کو ڈسچارج کیا جائے اور ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔
جسٹس سید شہباز علی رضوی نے نگران حکومت پنجاب اور پولیس سے اس حوالے سے جواب طلب کر لیا۔
خدیجہ شاہ کے اہل خانہ نے بھی ایک بیان جاری کیا جس میں عدالتی حراست میں ان کی خیر خیریت پر تشویش کا اظہار کیا گیا، بیان میں کہا گیا ہے کہ خدیجہ شاہ کی کبھی کسی سیاسی جماعت سے کوئی باضابطہ وابستگی نہیں رہی اور وہ ہمیشہ قانون کی حکمرانی اور پاکستانی معاشرے کی خوشحالی کے لیے پرعزم رہی ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے بارے میں کوئی بھی منصفانہ، غیر جانبدارانہ تحقیقات اور عدالتی کارروائی خدیجہ شاہ کی بے گناہی کو ثابت کرے گی۔
پی ٹی آئی کی سینیٹر زرقا سہروردی کی ایک اور درخواست پر جسٹس سید شہباز علی رضوی نے صوبائی لا افسر کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی کہ کتنی خواتین ملزمان پولیس کی تحویل میں اور جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔
لا افسر نے درخواست پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’خواتین ملزمان کو قانونی طور پر گرفتار کیا گیا ہے اور پولیس نے ٹرائل کورٹس سے ان کا ریمانڈ حاصل کیا ہے‘، انہوں نے جیل میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کی خبروں کو بھی مسترد کردیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان کو غیرقانونی طور پر گرفتار کیا گیا اور ان کی شناخت پریڈ کے لیے جیل بھیجا گیا۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس نے شناختی پریڈ کے عمل میں تاخیر صرف کارکنوں کو غیر قانونی طور پر جیل میں رکھنے کے لیے کی، بعد ازاں جج نے فریقین سے 6 جون تک جواب طلب کر لیا۔