پی ٹی آئی کا ایک بار پھر زیر حراست خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا الزام، پولیس کی تردید
پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے ان الزامات کو دہرایا کہ حکومت پی ٹی آئی کی قید خواتین کارکنوں اور حامیوں کو بلیک میلنگ، ہراساں کرنے اور غیر قانونی گرفتاریوں کے ذریعے پارٹی کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے، جب کہ پنجاب پولیس سمیت صوبے میں اعلیٰ ترین پولیس عہدیدار نے ایسے دعوؤں کی سختی سے تردید کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حماد اظہر نے مبینہ طور پر ’ظلم و ستم کے تمام ریکارڈ توڑنے‘ پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان حربوں کے باوجود ثابت قدم رہنے پر پارٹی کارکنان کی تعریف کی۔
ایک ٹوئٹ میں پنجاب پولیس کے ہمراہ عدالت میں آنے والی دو خواتین کہ جن کے چہرے شاپنگ بیگ سے ڈھکے ہوئے تھے، کی ویڈیو پوسٹ کرنے کے ساتھ انہوں نے لکھا کہ ’یہ حکومت خواتین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے‘۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہتھیاروں کو کئی گنا بڑھا دیا گیا یے، بلیک میل، ہراساں کرنا، دھمکیاں، غیر قانونی گرفتاریاں اور شاید اس سے بھی زیادہ، لیکن خواتین بھی ان گھٹیا ہتھکنڈوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور زبردست ہمت کا مظاہرہ کیا ہے‘۔
حکومت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو ہونے والے پر تشدد مظاہروں کے بعد سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا تھا۔
ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت صرف جبر کی صلاحیت رکھتی ہے اور ملک نہیں چلا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ حکمران آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، معیشت تباہ ہوچکی اور عمران خان کا خوف ان کے اعصاب پر ابھی تک ہے، انہوں نے آنے والے دنوں میں معاشی حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا۔
گزشتہ دنوں پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے بھی ایسے ہی الزامات لگائے گئے ہیں۔
آئی جی پنجاب کی تردید
تاہم پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ زیر حراست خواتین کے ساتھ غلط رویہ، بدسلوکی یا تشدد کیا جا رہا ہے۔
لاہور میں اپنے دفتر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس جنہوں نے پرانی ویڈیو فوٹیج اور زیر حراست خواتین پر تشدد کی تصاویر شیئر کیں ان کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی ان خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی عصمت دری اور تشدد کے حوالے سے شیئر کی گئی ’من گھڑت معلومات‘ پر افسوس کا اظہار کیا جو جیل یا حراست میں ہیں۔
آئی جی پنجاب جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر اور لاہور انویسٹی گیشن کی ایس ایس پی انوش مسعود چوہدری کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں آئی جی پی نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’سوشل میڈیا انفلوئنسرز‘ جھوٹ پھیلا رہے ہیں کہ جیل سے رہا ہونے والی خواتین کے جسم پر کٹ کے نشان اور زخم تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے کچھ اکاؤنٹس کا سراغ لگا کر قانونی کارروائی کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو بھیج دیے گئے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پنجاب پولیس قانونی کارروائی شروع کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے کہا کہ گشتہ چند دنوں میں خواتین کے حوالے سے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی پوسٹ کردہ تصاویر یا ویڈیوز کا 9 مئی کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے’۔
عثمان انور نے واضح کیا کہ جیل کے عملے اور قیدیوں کی نگرانی کے لیے تقریباً 150 کیمرے موجود ہیں اور کسی مرد عملے نے کبھی کسی خاتون سے پوچھ گچھ نہیں کی۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن انوش مسعود نے بھی ان خبروں کو مسترد کر دیا کہ پی ٹی آئی کی قید خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے فسادات کے سلسلے میں پنجاب میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی کل 15 خواتین کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے 11 لاہور اور دو دیگر راولپنڈی کی جیلوں میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ’جیل میں خواتین کے خصوصی سیل میں کوئی بھی مرد جیل کا عملہ داخل نہیں ہو سکتا جہاں ان خواتین کو رکھا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گائناکولوجسٹ سمیت لیڈی ڈاکٹرز بھی یہاں موجود ہیں۔
’ پولیس افسر نے بتایا کہ انہوں نے جیل کا دورہ کیا اور فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ سمیت تمام زیر حراست خواتین سے ملاقات کی، خدیجہ شاہ کو دمہ کی دوا دی گئی تھی اور دوسری خاتون کو جلد کی بیماری کی دوا دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد کو ملاقاتیوں سے ملاقات کی اجازت دے دی گئی ہے کیونکہ وہ جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔