پی ٹی آئی چھوڑ جانے والوں کو ساتھ ملانے کیلئے ترین گروپ کی کوششیں تیز
9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے راہیں جدا کرنے والے 70 سے زائد رہنماؤں اور سابق اراکین اسمبلی کو راغب کرنے کے لیے جہانگیر ترین گروپ نے کوششیں تیز کردیں تاکہ عام انتخابات سے قبل انہیں اپنی صفوں میں شامل کیا جاسکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی کے سابق رہنما علیم خان سے لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جس میں سابق وزیر اسحٰق خاکوانی، وزیراعظم کے معاون عون چوہدری، سعید اکبر نوانی اور شعیب صدیقی نے بھی شرکت کی۔
اگرچہ ترین گروپ کی جانب سے سیاسی میدان میں ان کی دوبارہ انٹری کے حوالے سے کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے تاہم رپورٹس بتا رہی ہیں کہ جہانگیر ترین ایک نئی سیاسی جماعت کے ساتھ اپنے سیاسی کیریئر کا دوبارہ آغاز کریں گے، واضح رہے کہ 9 مئی سے پہلے بھی پی ٹی آئی کے نئے دھڑے کا قیام زیرغور تھا۔
عون چوہدری اور اسحٰق خاکوانی نے ترین گروپ کی جانب سے نئی سیاسی جماعت بنانے کے منصوبے کے حوالے سے سوالوں کا جواب نہیں دیا، تاہم ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے زیادہ سے زیادہ سابق اراکین کو راغب کرنے کے لیے جہانگیر ترین اور رہنما مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت حسین کے درمیان دوڑ لگی ہوئی ہے۔
اندرونی ذرائع نے بتایا کہ جہانگیر ترین تاحیات نااہلی کے پیش نظر نئی سیاسی جماعت کی قیادت کے لیے سپریم کورٹ سے کلین چٹ حاصل کرنے کے خواہاں ہیں، جبکہ علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب بننے کا خواب پورا کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف کا آشیرباد حاصل کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ علیم خان کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے تاہم انہوں نے علیم خان کو وزیراعلیٰ بنانے سے انکار کردیا تھا۔
فواد چوہدری، شیریں مزاری، عامر کیانی، عمران اسمعٰیل، علی زیدی، ابرارالحق، امین اسلم، ملیکہ بخاری، مسرت چیمہ اور جمشید چیمہ سمیت پی ٹی آئی کے 70 سے زائد رہنما اور سابق اراکین اسمبلی 9 مئی کے پرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرچکے ہیں، ان میں سے بیشتر کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ترین گروپ کی اکثریت جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے، اس لیے امکان ہے کہ اس علاقے سے پی ٹی آئی چھوڑنے والے اکثر لوگ جہانگیر ترین کے ساتھ ملنے کا فیصلہ کریں گے، تاہم اس مقصد کے لیے جہانگیر ترین اس بار اتنی توانائی نہیں لگا رہے جتنی وہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوتے وقت لگایا کرتے تھے۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ جہانگیر ترین نے 10 برس تک صحیح معنوں میں پی ٹی آئی کے لیے سخت محنت کی لیکن آخرکار عمران خان نے اپنی اہلیہ (بشریٰ بی بی) کے زیر اثر آکر انہیں چھوڑ دیا، اسی لیے وہ اس بار اس انداز میں کوئی پھرتیاں نہیں دکھا رہے۔
پی ٹی آئی کے ایک سابق رہنما نے بتایا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد عمران خان کا ساتھ چھوڑ جانے والے اکثر پارٹی رہنما مسلم لیگ (ن) میں نہیں جا سکتے کیونکہ وہ شریف خاندان کے شدید مخالف رہے ہیں، اس لیے اب ان کے پاس پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ق) یا ترین گروپ کی شکل میں 3 آپشن رہ گئے ہیں۔