• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

عمران خان نے فوج کی طلبی کو ’غیر اعلانیہ مارشل لا‘ قرار دے کر سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

شائع May 25, 2023
عمران خان نے درخواست کی کہ ایم پی او کے تحت کارکنان کی گرفتاریاں غیر آئینی قرار دی جائیں اور انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا جائے — فائل فوٹو: ٹوئٹر/پی ٹی آئی
عمران خان نے درخواست کی کہ ایم پی او کے تحت کارکنان کی گرفتاریاں غیر آئینی قرار دی جائیں اور انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا جائے — فائل فوٹو: ٹوئٹر/پی ٹی آئی

سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے آئین کی دفعہ 245 کے نفاذ کو ’غیر اعلانیہ مارشل لا‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

خیال رہے کہ آئین کا آرٹیکل 245 شہری حکومت کو ضرورت پڑنے پر افواج پاکستان کی مدد طلب کرنے کا اختیار دیتا ہے جس کے تحت انتظامیہ نے پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فوج طلب کی تھی۔

آرٹیکل 245 میں کہا گیا ہے کہ: ’مسلح افواج، وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت بیرونی جارحیت کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور قانون کے تابع شہری حکام کی امداد میں جب ایسا کرنے کے لیے طلب کی جائیں کام کریں گی‘۔

عمران خان نے ایڈووکیٹ حامد خان کی وساطت سے آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر دائر کی۔

درخواست میں وفاق پاکستان، سابق وزیراعظم نواز شریف، وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز، سابق صدر آصف زرداری، وزیر خارجہ بلاول بھٹو، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کے علاوہ نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالتوں سے رہائی کے احکامات کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان اور رہنماؤں کو نظر بندی کے قوانین کے تحت قید رکھنا عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات کی علیحدگی کے بنیادی عنصر کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین و ہمدردوں کی ایم پی او کے تحت گرفتاری و نظر بندی اور بغیر وجہ بتائے انہیں حراست میں رکھنا غیر آئینی اور کالعدم ہے اور ان کی فوری رہائی کے احکامات دیے جانے چاہیے۔

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ’پی ٹی آئی کو زبردستی پارٹی کی رکنیت اور عہدہ چھوڑنے کے ذریعے ختم کرنا آئین کے آرٹیکل 17 کے خلاف ہونے کے ناطے غیر آئینی اور کالعدم ہے‘۔

اپنی درخواست میں پی ٹی آئی کے سربراہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ 1952 کے تحت شہریوں کی گرفتاریاں، تحقیقات اور ٹرائل ’غیر آئینی اور کالعدم ہیں اور اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہے اور یہ آئین، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کی نفی کے مترادف ہے۔‘

درخواست میں استدعا کی گئی ہے سپریم کورٹ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جبری علیحدگیوں کو غیر آئینی قرار دے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ سارا ڈرامہ نواز شریف اور مریم نواز کا رچایا ہوا ہے، نوازشریف اور مریم نواز نے پروپیگنڈا کیا کہ عمران خان آپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں۔

عمران خان نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ آرٹیکل 245 کے نفاذ کو کالعدم قرار دیا جائے، 9 اور 10 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے۔

انہوں نے درخواست کی کہ ایم پی او کے تحت کارکنان کی گرفتاریاں غیر آئینی قرار دی جائیں اور انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔

استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت شہریوں کا کورٹ مارشل غیرآئینی قرار دے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے بیرسٹر گوہر کے توسط سے آرٹیکل 245 کے نفاذ کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

9 مئی کو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہوئے پر تشدد واقعات کے بعد وفاقی وزارت داخلہ نے امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر قابو پانے کے لیے اسلام آباد، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں پاک فوج تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔

نوٹی فکیشنز میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 4 (3) (ٹو) کے تحت دیے گئے اختیارات استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔

وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ فوجی دستوں کی حتمی تعداد، تاریخ اور تعیناتی کے علاقے کا تعین صوبائی حکومت، ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیڈکوارٹرز کی مشاورت سے کرے گی۔

بعد ازاں 15 مئی کو وفاقی کابینہ نے دونوں صوبوں میں امن و امان کی صورتحال کی روشنی میں پنجاب میں رینجرز اور بلوچستان میں فوج کی تعیناتی کی منظوری دے دی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024