معاشی بحران سیاسی مایوسی کے ساتھ جڑا ہے، سروے
صرف 16 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ ملک کی معیشت بہتر ہو رہی ہے، یہ تعداد افغانستان کے علاوہ خطے میں سب سے کم ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں ’گیلپ ورلڈ پول سروے‘ کے مطابق کس طرح ملک میں بدامنی اس کی معاشی پریشانیوں میں جڑی ہوئی ہے جس سے ملکی معیشت خراب سے خراب تر ہوجاتی ہے۔
ملک گیر سطح پر مایوسی کی وجوہات بتاتے ہوئے سروے میں کہا گیا کہ پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے تاثرات ریکارڈ بلندیوں کو چھو چکے ہیں، معیار زندگی میں کمی آئی ہے جبکہ لاکھوں افراد بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، معاشی بحران سے سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
رپورٹ کے مصنفین ہاشم پاشا اور بین ڈکٹ نے بتایا کہ ’یہ ریکارڈ پر سب سے کم پوائنٹس میں سے ایک ہے‘، سوائے افغانستان کے، جہاں طالبان کے قبضے کے بعد سے معیشت تباہ ہو چکی ہے، پاکستان اقتصادی حالات میں بہتری کے تصورات میں ایشیا پیسیفک خطے کے تمام ممالک سے نیچے ہے۔
ریکارڈ 86 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ حکومت میں کرپشن وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہے اور 80 فیصد کو یقین ہے کہ کاروبار میں بھی کرپشن ریکارڈ سطح تک پہنچ چکی ہے۔
حالیہ سیاسی بحران اور طویل عرصے سے جاری اقتصادی بحران کے درمیان تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے مصنفین نے بتایا کہ حالیہ سالوں میں پاکستانی معیشت میں ریکارڈ مہنگائی دیکھی گئی، اشیا کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں اور بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر میں نمایاں کمی ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2022 کی آخری ششماہی میں جس دوران تباہ کن سیلاب آیا، جزوی طور پر پاکستان میں گیلپ کا فیلڈ ورک چل رہا تھا، اس سے تقریباً 15 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد بےامنی نے معاشی مشکلات میں اضافہ کیا۔
حالیہ بڑے مظاہروں کے ساتھ ساتھ جاری آئینی بحران نے جنوبی ایشیائی قوم میں عدم استحکام کے پہلے سے دائمی احساس کو بڑھا دیا ہے اور ڈیفالٹ سے بچنے کی کوششوں کو مزید بےیقینی بنا دیا ہے۔
پرانے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے مصنفین نے بحث کی کہ 2018 میں عمران خان کی حکومت کے آغاز میں زیادہ پاکستانی (49 فیصد) سمجھتے تھے کہ ان کا معیار زندگی بہتر ہورہا ہے جبکہ 20 فیصد سمجھتے تھے کہ صورتحال خراب ہورہی ہے۔
اس کے بعد سے پاکستان کا منظرنامہ خراب ہورہا ہے، 2022 میں 19 فیصد پاکستانیوں نے بتایا کہ ان کا معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے اور 48 فیصد کا کہنا تھا کہ معیار زندگی خراب ہو رہا ہے۔
رپورٹ میں مشاہدہ کیا گیا کہ معاشی بحران کے سبب لاکھوں افراد کو بنیادی ضروریات پوری کرنے میں دشواری کا سامنا ہے، سروے میں 44 فیصد نے بتایا کہ ان کی گزشتہ سالوں میں بعض اوقات خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں تھی۔
سروے کے مطابق معاشی بحران کے سبب ممکنہ طور پر 36 فیصد مردوں کے مقابلے میں 51 فیصد خواتین متاثر ہوئیں، ایسے پاکستانی جنہیں شیلٹر (چھت) کا خرچہ برداشت کرنے میں مشکلات پیش آئیں، ان کی تعداد 2022 میں بڑھ کر 32 فیصد ہوگئی، یہ سب سے زیادہ شرح میں سے ایک ہے۔
سروے کے مطابق معاشی بدحالی سندھ میں سب سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے، جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے زیادہ خطرات اور جاگیرداروں کی دہائیوں سے جاری حکمرانی نے اسے پاکستان کے دیگر صوبوں سے پیچھے چھوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
موجودہ سیاسی بحران پر تبصرے کے دوران رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ ’ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے اور اس حوالے سے مستقبل انتہائی بےیقینی ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق عمران خان کی گرفتاری نے 2007 میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد سب سے زیادہ عوامی غصہ پیدا کیا ہے اور سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں کے درمیان خلیج کو وسیع کر دیا ہے۔
رپورٹ میں دلیل دی گئی ہے کہ پاکستان میں معیارِ زندگی بہتر ہونے کا امکان اس وقت تک نہیں ہے جب تک کہ ایک پائیدار سیاسی حل نہ ہو جائے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پاکستانی عوام یہ سمجھتے رہیں گے کہ وہ کرپٹ نظام میں زندگی گزار رہے ہیں۔